قسط نمبر1
ضیاء الرحمٰن چترالی
یوآنے ریڈلے مریم (Maryam Yvonne Ridley) عالمی صحافت کا ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اس برطانوی خاتون جرنلسٹ کی شہرت کو اس وقت پر لگ گئے، جب وہ نائن الیون واقعہ کے بعد پاکستان پہنچیں اور وہاں سے سچی خبروں کی تلاش میں غیر قانونی طور پر افغانستان داخل ہوکر طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں۔ پھر یہ گرفتاری ان کی ہدایت کا ذریعہ بھی بنی۔
راقم کا مریم بہن سے سوشل میڈیا میں رابطہ رہتا ہے اور کبھی کبھار وہ پاکستان بھی تشریف لاتی ہیں۔ جون 2014ء میں کراچی میں مسلم امہ کا درد رکھنے والے کچھ حضرات کی جانب سے Solidarity with Syria کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں بطور مہمان خصوصی محترمہ ریڈلے مریم کو مدعو کیا گیا تھا۔ چونکہ راقم کے کچھ صحافی دوست بھی یہ سیمینار کے منتظمین میں شامل تھے، اس لئے اسے بھی دعوت دی گئی تھی۔ تاہم اس وقت محترمہ ریڈلے مریم سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ محترمہ ریڈلے مریم قبول اسلام کے بعد صحافت کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی اسلام اور مظلوم مسلمانوں کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ وہ مغرب میں امریکی مظالم کا شکار پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کیلئے مؤثر آواز بلند کرتی ہیں۔
ریڈلے 1959ء میں برطانوی علاقے اسٹینلے کی کاؤنٹی ڈرہم کے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ریڈلے مریم نے قید میں گزارے گئے لمحات اور اپنے قبول اسلام کے بارے میں ایک کتاب ’’طالبان کی قید میں: یوآنے ریڈلے سے مریم تک‘‘ تصنیف کرچکی ہیں۔ جس کا اردو ترجمہ محترم یحییٰ خان نے کیا ہے۔ اس کتاب میں ڈرامہ، سسپنس اور تھرل سبھی عناصر موجود ہیں، جو اس کتاب کو دلچسپ اور لائق مطالعہ بناتے ہیں۔ ایک عام صحافی بننا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن نامور صحافی بننے کیلئے معمول کی کاوشوں سے ہٹ کر کسی بڑی خبر یا ایکسلوزیو اسٹوری پر کام کرنا پڑتا ہے، جس کیلئے بسا اوقات صحافی کو اپنی جان بھی خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ جیسے ہمارے محترم دوست فیض اللہ خان (اے آر وائی کے رپورٹر) بھی ایسی کاوش کے نتیجے میں عرصے تک افغانستان میں قید رہے۔ صحافی کیلئے یہ مشکلات اس وقت دو چند ہو جاتی ہیں، جب وہ رپورٹنگ کیلئے کسی ایسے ملک میں جاتا ہے، جس کی ثقافت، جغرافیہ اور زبان سے وہ یکسر نا بلد ہو اور جنگی نامہ نگار تو بموں کے گھڑگھڑاہٹ اور گولیوں کی تھڑتھڑاہٹ میں جنگ کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ریڈلے مریم بھی ایک ایسی ہی بین الاقوامی صحافی تھیں، جو لندن کے سنڈے ایکسپریس میں بطور چیف رپورٹر کام کر رہی تھیں۔ اس سے پہلے وہ معروف برطانوی اخبار ڈیلی مرر، سنڈے ٹائم اور اینڈیپنڈنٹ آف سنڈے سے بھی منسلک رہ چکی تھیں۔ وہ نائن الیون کے بعد اور امریکہ کے افغانستان پر حملے سے قبل اسلام آباد آئیں اور سیدھا پشاور کا رخ کیا تاکہ جنگ سے قبل یہاں کے عوام کے خیالات و تاثرات اور جنگ کے ممکنہ اثرات پر مشتمل اسٹوریز اپنے اخبار کے لئے لندن بھیج سکیں۔ لیکن یہاں ان کی مشکل یہ تھی کہ مقامی زبان، ثقافت اور جغرافیہ سے وہ بالکل نابلد تھیں۔ وہ ایک ترجمان پلس گائیڈ کی مدد سے پاکستان میں امریکہ مخالف جلسے جلوس کی کوریج کرنے لگیں۔ ان دنوں امریکہ و بر طانیہ افغانستان پر حملے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ غیر ملکیوں کے حوالے سے غیر یقینی فضا میں بھی ریڈلے کا دارالعلوم حقانیہ اکو ڑہ خٹک جا کر مدرسہ کے علما کا مؤقف جاننا، سرکاری حکام سے لڑ جھگڑ کر درہ خیبر جیسے خطرناک قبائلی علاقے میں جانا، ایک اہم کردار جنرل (ر) حمید گلؒ سے ممکنہ جنگ کے بارے انٹرویو کرنا اور اسی طرح جلو زئی کیمپ میں افغان مہاجرین کا احوال اپنے آنکھوں سے دیکھنا، اپنے پیشے سے کمٹمنٹ اور ان کی مہم جوئی کا ثبوت ہے۔ لیکن اب ریڈلے ایک قدم مزید آگے کر بڑھ کر افغانستان جانا چاہتی تھیں، جبکہ افغانستان کا سفارت خانہ کسی بھی مغربی باشندے کو ویزہ نہیں دے رہا تھا۔ وہ افغانستان میں داخل ہو کر جنگ کے بارے میں افغان عوام کا مؤقف جاننا چاہتی تھیں۔ (جاری ہے)