حاجی قائم دینؒ لائل پور میں کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ رب تعالیٰ نے انہیں دین و دنیا دونوں نعمتیں بڑی فیاضی سے عطا کی تھیں، شاہ جی کے مخلص دوستوں میں سے شامل تھے، تقسیم سے قبل آگرہ میں تھے۔
انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ آگرہ میں مارکیٹ کی چھت پر منعقد جلسہ میں تقریر کر رہے تھے۔ حجازی لہجے میں قرآن مجید کی آیات پڑھیں تو ایک نوجوان تڑپ کر چھت کے کنارے کی دیوار سے چھت پر آن گرا، مرنے سے تو بچ گیا، لیکن وجد اور جذب کی حالت میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا۔
لوگوں نے اٹھایا تو اس سے چھرا برآمد ہوا، اسے شاہ جیؒ کے پاس لایا گیا۔ شاہ جی نے اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا، کچھ دیر پڑھ کر پھونکا اور محبت سے پاس بٹھالیا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے انکشاف کیا کہ مجھے تو شاہ جی کے قتل کیلئے بھیجا گیا، لیکن شاہ جی کا خطبہ اور قرآن مجید سن کر میں بے تاب اور بے ہوش ہو کر گر پڑا، ہزاروں لوگ گواہ ہیں کہ آپ کا خطبہ اور خطاب لاجواب ہوا کرتا تھا۔
ایک نواب صاحب کی تربیت
حضرت گنگوہیؒ کے ہاں ایک نواب مہمان ہوئے، مولانا یحییٰ صاحبؒ منتظم تھے، انہوں نے نواب صاحب کا قیام خانقاہ سے الگ دوسرے مکان میں تجویز کیا۔ حضرت کا حال یہ تھا کہ معمولی بوریے پر بیٹھتے، دری پر بیٹھتے۔ بیش قیمت قالین پر بیٹھتے، نہ چٹائی پر بیٹھنے سے عار نہ پیش قیمت قالین پر بیٹھنے سے استکبار۔
اتفاق سے اس وقت حضرت کے نیچے تین قالین بچھے ہوئے تھے۔ مولانا نے ایک قالین وہاں سے اٹھوا کر نواب صاحب کے لئے اس مکان میں بھجوادیا، جہاں ان کا قیام تجویز ہوا تھا۔ جب حضرت تشریف لائے اور بیٹھناچاہا کیونکہ اس وقت بینائی جاتی رہی تھی، اس لئے ہاتھ سے ٹٹول کر دریافت فرمایا کہ ایک قالین کہا ہے؟ خطاب عام تھا کسی نے جواب نہ دیا تو خطاب خاص فرمایا: مولوی صاحب! وہ قالین کہا ہے؟ مولوی صاحب نے جواب دیا نواب صاحب کے لئے بھجوا دیا ہے۔ اس پر فرمایا اچھا نواب صاحب قالین پر بیٹھنے کے لئے آئے ہیں، ان کے ہاں کچھ کمی تھی قالین کی؟ (نواب صاحب کی آدمی نوابی تو یہاں جھڑگئی)
پھر جب کھانے کا وقت ہوا تو حضرت محمود الحسن شیخ الہندؒ بھی وہاں موجود تھے۔ یہ وہاں سے کھسکنے لگے کہ اب نواب صاحب کھالیں گے، ہم لوگ بعد میں کھالیں گے۔ حضرت نے تاڑ لیا اور فرمایا مولوی محمود کہاں چلے؟ اگر نواب صاحب کو غریب طالب علموں کے ساتھ کھانا پسند نہ ہوتو اپنا کھانا الگ کھالیں، ہمارا تو مرنے جینے کا ساتھ ہے، ہم کو نہیں چھوڑ سکتے (آدھی نوابی یہاں جھڑگئی اور خوب سمجھ میں آگیا) کہ طالب علموں کی حضرت کے یہاں کیا قدرو قیمت ہے اور ہم نوابوں کی کیا؟ گویا طالب علموں اور نوابوں میں فرق سمجھ میں آگیا۔ (حضرت لوگوں میں اخلاص اور انکساری کرنے کے لئے اور ذکر وتزکیہ کا رنگ چڑھانے کے لئے یوں تربیت فرمایا کرتے تھے۔)
یہ بچہ علامہ زماں ہوگا:
فقہ کی مشہور درسی کتاب ہدایہ شریف کے مصنف شیخ الاسلام ابوالحسن علی بن ابوبکر برہان الدین الفرغانی المرغینانیؒ، عالم اسلام کی بہت بڑی شخصیت تھے۔ شیخ برہان الدین بلخیؒ فرماتے ہیں، میں تقریباً پانچ سالہ بچہ تھا اور والد کے ہمراہ کہیں جا رہا تھا، سامنے سے صاحب ہدایہ علامہ مرغینانیؒ کی سواری آئی۔
میرے والد ہجوم کی وجہ سے دوسرے راستے پر پڑگئے تھے۔ حضرت کی سواری قریب آئی تو میں نے بڑھ کر سلام کیا، انہوں نے میری طرف تیز نظروں سے دیکھا اور فرمایا: ’’مجھے اس بچے میں نور علم نظر آتا ہے۔‘‘
یہ بات سن کر میں ان کے آگے آگے چلنے لگا۔ پھر فرمایا: ’’خدا مجھ سے یہ کہلواتا ہے کہ یہ لڑکا اس قدر عظیم ہوگا کہ بادشاہ اس کے دروازے پر حاضری دیں گے۔‘‘ پھر اس ولی کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ صادق آئے اور اہل زمانہ نے حضرت بلخیؒ کی ایسی ہی شان دیکھی۔ (بے مثال واقعات)