ملک الموت اور شداد کی جنت

ایک مرتبہ ملک الموت نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی: اے مولائے کریم میں نے کروڑوں لوگوں کی جانیں قبض کی ہیں، مگر دو جانیں ایسی ہیں جنہیں قبض کرتے وقت مجھے بڑا ہی صدمہ اور افسوس ہوا ہے، میں نے تیرے حکم کی تکمیل ضرور کی، مگر نہایت ہی دکھ کے ساتھ اور وہ دو: ایک ماں اور ایک بیٹا تھا۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک جہاز غرق ہوگیا تھا اور ایک عورت اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ ایک تختے کا سہارا لینے میں کامیاب ہوگئی، تختہ دریا میں بہہ رہا تھا اور ماں اور بیٹا اس پر سوار تھے، اے مولا کریم اچانک تیرا حکم ہوا اور میں نے ماں کی جان اس تختہ پر نکال لی، میرے لئے پریشان کن بات یہ تھی کہ ماں مر چکی ہے، اب بچے کا کیا حشر ہوگا؟ بچہ ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر سوار ہے اور تختہ ہرآن پانی کی لہروں کے تھپیڑ کھا رہا ہے، جو کسی وقت بھی کسی لہر کی زد میں آکر الٹ سکتا ہے، بچے کے لئے نہ خوراک کا انتظام ہے، نہ کسی نگران کا بندوبست ہے۔
دریا کے کنارے دھوبی کپڑے دھورہے تھے، اچانک کسی کی اس بچے پر نظر پڑی تو تختے کو کھینچ کر لائے، بڑے حیران ہوئے کہ ماں مر چکی ہے، بچہ بے یارو مددگار تختہ پر زندہ سلامت موجود ہے۔ وہ لوگ اس بچے کو اپنے سردار کے پاس لے گئے، سردار بے چارہ بے اولاد تھا، سردار خوبصورت بچہ دیکھ کر اس پر اس کا دل آگیا اور سردار نے بچے کو اپنی نگرانی میں لے کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا، یہ بچہ آٹھ نو سال کی عمر کا تھا کہ اپنے ساتھی بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، اتنے میں بادشاہ وقت کی سواری کی آمد کا شور اٹھا، سب لوگ اِدھر اُدھر بھاگ گئے، مگر یہ بچہ سڑک پر اکیلا کھڑا رہا، بادشاہ کی سواری گزر گئی، اس کے پیچھے اس کا عملہ پیدل آرہا تھا۔ ان میں سے ایک سپاہی کو راستے میں سے سرمہ کی ایک پڑیا مل گئی، اتفاق سے اس بچے کی نظر بہت کمزور تھی اور سرمہ کی اسے بہت ضرورت بھی تھی، لہٰذا اس نے وہ سرمہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیا، آنکھوں میں لگانے سے پہلے اس خیال آیا کہ یہ سرمہ کوئی تکلیف نہ پہنچائے، لگانے سے پہلے کسی دوسرے شخص پر آزمالینا چاہیے، قریب ہی وہ بچہ کھڑا تھا، اس نے اس بچے پر آزمانا چاہا۔ بچے نے سرمہ اپنی آنکھوں میں لگایا، مگر جوں ہی سرمہ اس نے لگایا اسے زمین کی تہہ میں موجود چیزیں بھی نظر آنے لگیں، اس نے دیکھا کہ زمین کے اندر بہت سے خزانے پوشیدہ ہیں، بچہ ہوشیار تھا، اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا کہ سرمہ لگانے کی وجہ سے میری آنکھوں میں سخت تکلیف پیدا ہوگئی۔ ( وہ سرمے کی پڑیا گرا کر چلے گئے)۔ بچہ سرمہ کی پڑیا اٹھا کر گھر پہنچا اور خوشی خوشی باپ کو سارا واقعہ سنایا۔ سردار بڑا خوش ہوا، باپ نے کہا کہ ہمارے پاس آدمی بھی ہیں اور گدھے بھی ہیں، تم سرمہ لگاؤ، ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں، جہاں کہیں خزانے پاؤ، ہمیں بتاؤ ہم نکال لیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بچے کے بتانے پر وہ لوگ خزانے نکالنے لگے اور تھوڑی ہی عرصے میں امیر بن گئے، بچہ جوان ہوا تو اس نے پرزے نکالنے شروع کئے، ان کے پاس دولت کی فراوانی ہوگئی، زمین کے تمام خزانے اس کے نظروں میں تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ بہت سے آدمی اپنے ساتھ ملا لئے، اس کے بعد تمام سرداروں کو اِدھر اُدھر کردیا اور خود سردار بن گیا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس نے بادشاہ کے ساتھ بھی ٹکر لے لی اور اسے مغلوب کر کے خود بادشاہ بن گیا۔
اس بچہ کا نام شداد تھا اور یہ وہی بچہ تھا، جس کی ماں تختے پر ہی مرگئی تھی اور یہ اکیلا دریا کی لہروں کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب یہ برسر اقتدار آیا تو ا نے حکم دیا کہ ایک ایسا کمال درجے کا شہر آباد کیا جائے، جس کی ایک اینٹ سونے کی ہو اور دوسری چاندی کی ہو، اس میں ایک عالی شان باغ ہو، جس میں دنیا کی ہر چیز میسر ہو، جب وہ شہر ہر لحاظ سے مکمل ہوگیا تو شداد نے ارادہ کیا کہ جا کر اس شہر کا نظارہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ شہر کو دیکھنے نکلا، ابھی وہ دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ ملک الموت کو حکم ہوا اور اس نے وہیں اس کی روح قبض کرلی، اسے اتنا موقع بھی نہ دیا کہ اپنے بے مثال باغ کو ایک نظر دیکھ سکتا، ملک الموت نے کہا کہ اے مولائے کریم اس شخص کی روح قبض کرتے وقت بھی مجھے نہایت ہی صدمہ پہنچا کہ وہ شخص ہر چیز تیار کر کے اسے دیکھ بھی نہ سکا۔
حق تعالیٰ نے فرمایا یہ وہی بچہ ہے جس کی ماں تختہ پر مرگئی تھی اور اس پر تجھے ترس آیا تھا۔ اس بچے نے بڑے ہوکر نافرمانی کی، خدا کے حکم سے بٖغاوت کی اور سرکشی اختیار کی، مگر ہم نے اسے خود ساختہ جنت میں قدم رکھنے کی مہلت بھی نہ دی اور اسے باہر ہی ہلاک کردیا۔ اسی جنت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دنیا میں موجود ہے، مگر انسان کی نظروں سے اوجھل ہے۔
سیدنا امیر معاویہؓ کے زمانے میں ایک صحابیؓ کا اونٹ گم ہوگیا تھا، وہ اونٹ کی تلاش میں کہیں اس علاقے میں جا نکلا، تو حق تعالیٰ نے اسے وہ سب کچھ دکھلا دیا تھا۔ وہ صحابی وہاں کی کوئی نشانی بھی ساتھ لایا تھا، اس صحابی نے یہ واقعہ امیر معاویہؓ کے پاس بیان کیا۔ انہوں نے کافی تلاش کرایا، مگر کسی کو وہ جنت نہیں ملی اور اسے حق تعالیٰ نے پوشیدہ کردیا۔ (بحوالہ خزینہ)

Comments (0)
Add Comment