لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
چوبیس ستمبر کے اخبارات میں بھارتی فوج میں خود کشی کے بڑھتے رجحان سے متعلق ایک خبر شائع ہوئی۔ گزشتہ کئی سال سے ہر سال تقریباً 100 فوجی خودکشی کررہے ہیں۔ خودکشی کا بڑا سبب خراب موسم والے علاقوں میں پوسٹنگ، چھٹی کا نہ ملنا اور کئی دیگر عوامل ہیں۔ بھارت کے پاس تیرہ (13) لاکھ حاضر فوج ہے۔ اسے 60 ہزار جوانوں کی کمی کا سامنا ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 52 ارب ڈالر کا ہے، سب سے زیادہ بجٹ امریکہ، چین اور روس کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھارت، برطانیہ، فرانس اور سعودی عربیہ کا بجٹ ہے، جو 50-60 ارب ڈالر کے درمیان رہتا ہے۔ پاکستان کا دفاعی بجٹ 10-11 ارب ڈالر ہے، بھارتی فوج اس بجٹ میں زبردست اضافے کی خواہاں ہے۔
راقم الحروف یہاں اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتا ہے۔ مجھے 1971ء کی جنگ ڈھاکہ میں لڑنی پڑی، وہاں ہمیں گزشتہ ایک سال سے جنگی صورتحال درپیش تھی۔ ایسی صورتحال میں جوانوں اور افسروں کو کبھی کھانا نہیں ملتا، کبھی نہانے کا موقع نہیں ملتا، کبھی سونے کا موقع نہیں ملتا، کہیں سخت سردی ہوتی ہے اور کہیں سخت گرمی، کہیں مچھر بہت ہوتے ہیں، کہیں کچھ اور مصائب ہوتے ہیں۔ کمزور فوجوں کے جوان وہاں جاتے ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں، لیکن میں نے دیکھا کہ مشکل ترین حالات میں بھی ہمارے جوان بڑے حوصلہ سے لڑ رہے تھے۔ 15 دسمبر کی شام ڈھاکہ ہوائی اڈے پر چار بمبار جہاز بھیجے گئے۔ پائلٹوں کو علم تھا کہ وہ جنگ کی آخری شام ہے۔ اپنے کارنامے دیکھنے کیلئے بہت نیچے آگئے۔ طیارہ شکن توپخانے والوں نے کوئی وقت ضائع نہ کیا۔ توپ سے گولے داغ دیئے۔ دونوں جہاز کٹی پتنگ کی طرح زمین پر آگرے۔ بھارتی سپاہی سوچتے ہیں کہ مر کے بھی چین نہ پایا تو کیا کریں گے۔ پاکستانی سپاہی کہتے ہیں، چین ہی مر کے آئے گا۔ بھارتی فوج میں مالی اور جنسی کرپشن بھی بہت زیاد ہے۔ ملک میں کروڑوں لوگوں کو جنسی بیماریاں ہیں اور کھانے کا معیار گھٹیا ہے۔
پاکستانی فوج میں جوان اور افسر مل کر رہتے ہیں۔ عید، بقر عید پر گلے ملتے ہیں، ایک میز پر مل کر کھانا کھاتے ہیں۔ عملی مساوات ہے۔ ایک سینئر افسر ایک غریب سپاہی کے گلے میں باہیں ڈال دیتا ہے، جھپی لگاتا ہے۔ بھارت میں سنیئر افسر (برہمن) کبھی شیخ ذات کے ہندو سپاہی کو منہ نہیں لگاتا۔ پاکستان کے پنجابی، پٹھان، سندھی، کشمیری سپاہی مل جل کے رہتے ہیں۔ بھارت کے مختلف ذاتوں کے لوگ ایک دوسرے سے شیرو شکر نہیں ہوتے۔ بھارت کے ایک صحافی نے ایک کتاب لکھی ہے کہ کس طرح شراب اور لڑکیاں اپنے مقاصد کے حصول میں استعمال ہو رہی ہیں۔
بعض ایسے کیس ہوتے ہیں کہ پہلے بھارت میں رہ کر خوب پیسہ بنالو، پھر فوجی نوکری چھوڑ کر، کینیڈا، آسٹریلیا، امریکہ میں جا کر بس جاؤ۔ لوٹی ہوئی دولت پر زندگی گزار دو۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی سپاہی اور افسر کردار کے معاملے میں بڑے مضبوط اور قابل اعتماد ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی فوج سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن میں نے گزشتہ پچاس سال میں یہ محسوس کیا ہے کہ سپاہی کی بہادری اور جانثاری کے مقابلے میں دو چیزوں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ دونوں چیزیں ٹیکنالوجی اور اقتصادی طاقت کا ہونا۔
بھارت کی اقتصادی حالت پاکستان سے بہت بہتر ہے۔ پاکستان کے پاس ذرائع کی کمی کبھی رہی۔ کبھی کوئی کان (معدنی) نکل بھی آئے تو راتوں رات چالاک لوگ سارا سونا چرا کر خود سو جاتے ہیں، عوام اپنے حقوق کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی اسکولوں، کالجوں میں یہ دو مضمون پڑھانے چاہئیں: ایک ہیلتھ سائنس اور دوسرا کردار سازی۔ اس سلیبس کو میڈیا پر نشر کیا جائے۔ منبروں اور مساجد کے جمعوں میں بیان کیا جائے۔ فرد مضبوط ہوں گے تو قوم مضبوط ہوگی۔