قسط نمبر: 246
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
لمبے گھونگھٹ کے پیچھے سے وزیر کو کچھ نظر نہ آتا تھا، لیکن دونوں حبشنیں دونوں طرف سے اس کے بازو ہکلے سے تھامے ہوئے اسے راستہ دکھاتی چلیں، لہٰذا اسے کچھ مشکل نہ ہوئی۔ حفاظتی اور خیر مقدمی ترکنیں اور حبشنیں باہر ٹھہر گئی تھیں۔ اب وزیر کے ساتھ یا قوت اور زیتون تھیں اور ان کے آگے مرزا فخرو بہادر نپے تلے آہستہ، لیکن خود اعتمادی سے بھرپور قدم اٹھا رہے تھے۔ تسبیح خانہ روشنی سے جھکا جھک ہو رہا تھا۔ اس قدر کہ روشنی کی لپٹیں گھونگھٹ پار کر کے وزیر خانم کی آنکھوں تک پہنچیں۔ اللہ معلوم ہوتا ہے ساری دلی کے قمقمے اسی جگہ یکجا کردیئے گئے ہیں، اس نے اپنے دل میں کہا۔
’’خبردار ہو!، خبردار… ادب سے کرو مجرا… جہاں پناہ مہابلی سلامت! پہلی آداب گاہ!‘‘…۔ ’’ملاحظہ! آداب سے کرو مجرا! دوسری آداب گاہ!‘‘… ’’جہاں پناہ بادشاہ سلامت!… نگاہ روبرو! تیسری آداب گاہ!‘‘۔
پہلی آداب گاہ تسبیح خانے کا صدر دروازہ۔ دوسری آداب گاہ بانات کا بھاری پردہ جسے ہر آداب کرنے والے کے لئے بطور خاص کھینچ کر کھولتے تھے۔ پردے کے اندر داخل ہوں تو سامنے بادشاہ سلامت تشریف فرما نظر آتے تھے۔ وہیں رک کر تیسری بار تسلیمات بجالا کر ہر آنے والا اپنی مقررہ جگہ پر ٹھہر جاتا تھا اور ہاتھ زیر ناف باندھ کر بالکل سیدھا دیکھتا رہتا تھا۔
’’نواب دلہن صاحب کا مجرا قبول ہو!‘‘۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم! اللہ رسول کی امان! دشمن پائمال، بلائیں رد! دلہن صاحب تسلیمات بجالاتی ہیں‘‘۔
قیمتی قالینوں کا فرش، چاروں طرف بھاری اطلسی پردے، بیچوں بیچ سنگ مرمر کی نشست گاہ جس پر بادشاہ سلامت دو زانو متمکن، چہرے پر سینکڑوں برس کے شاہی خون کا تیج، بدن بالکل سیدھا، گردن فراز اور اعتماد سے بھرپور، گویا جلال الدین محمد اکبر کی روح مجسم ہوگئی ہو۔ وزیر نے جوں توں کرکے کورنش ادا کی، پھر ایک تسلیم کرکے دل میں متوحش ہوئی کہ اب کدھر جاؤں۔ لیکن بادشاہ سلامت کی آواز سنائی دی، نہایت شائستہ، لیکن مضبوط، خود اعتمادی اور احساس اقتدار سے بھرپور، کہ سلطنت نہ سہی، لیکن ہم بادشاہ اب بھی ہیں اور وقتا آنے پر میدان بھی سنبھال سکتے ہیں: ’’سبحان اللہ، ہم مرزا فخرو بہادر کی نظر کے قائل ہوگئے۔ اللہ چشم زخم سے محفوظ رکھے‘‘۔
یاقوت النسا نے وزیر کو ہلکے سے ٹہوکا دیا کہ ذرا اور آگے بڑھئے۔ وزیر نے بمشکل دو تین قدم آگے بڑھائے۔ محفل کا رعب اس قدر تھا کہ اس کے پاؤں اٹھتے نہ تھے۔ جہاں پناہ نے اشارہ کیا تو قلماقنی نے ان کے پہلو میں رکھی ہوئی قطی کھولی اور اس کے اندر سے مالائے مروارید نکالی۔ بادشاہ کے دوسرے اشارے پر وہ مالا اس نے وزیر کے گلے میں ڈال دی۔ وزیر نے تین تسلیمیں ادا کیں اور پھر اسی پریشانی میں پڑی کہ اب کیا کروں۔ لیکن جہاں پناہ پھر گویا ہوئے: ’’ہم آپ کو شوکت محل کہہ کر پکاریں گے۔ ہماری تمنائے دلی ہے کہ آپ دونوں کو ساری کامگاریاں دین و دنیا کی نصیب ہوں اور ازدواج کی تمام مسرتیں آپ کے گرد ہمیشہ حلقہ زن رہیں‘‘۔
’’آمین! اللہ رسول کی پناہ بنی رہے! بنا بنی کے دل ملے رہیں! شوکت محل صاحب کو خطاب مبارک ہو!‘‘ کی آوازیں ہر طرف سے اٹھیں، پھر فوراً ہی نقیب نے پکارا: ’’گوہر اکلیل سلطنت، طرۂ تاج خلافت، ولی عہد سوئم غلام فخرالدین فتح الملک مرزا محمد سلطان بہادر!‘‘۔
یاقوت نے وزیر کو ہلکے سے اشارہ کیا کہ الٹے پاؤں تین قدم واپس آکر ایک جانب کھڑی ہوجائے۔ وزیر ابھی واپس جاہی رہی تھی کہ مرزا فخرو نے تیسری آداب گاہ سے مجرا کیا، پھر چار قدم آگے آکر مہابلی کو نذر دی۔ بادشاہ نے نذر کو ہاتھ سے چھو لیا اور نذر نثار نے پیچھے سے بڑھ کر نذر کو لے کر اپنے سر پر رکھا اور ولی عہد سوئم بہادر کو تسلیم کی۔ شاہزادہ الٹے پاؤں آداب گاہ پر واپس آیا۔
اس سے پہلے کہ شہزادے کو خلعت عطا ہو، بادشاہ سلامت اچانک گویا ہوئے: ’’اماں مرزا فخرو بہادر‘‘۔
’’حاضر ہوں پیرو مرشد‘‘۔
’’وہ جو ایک لمڈا ہے ناں شمس الدین احمد کی یادگار۔ اچھے شعر کہتا ہے‘‘۔
’’بہت درست پیرو مرشد‘‘۔
’’نظر نہیں آیا، بھلا سا نام ہے اس کا‘‘۔
’’جی عالیجاہ، نواب مرزا‘‘۔
’’آہاں، نواب مرزا خان۔ تو کیا اس کی کیفیت ہے؟‘‘
’’مجھ سے بہت بڑی بھول ہوگئی اعلیٰ حضرت، اس کی باریابی کا حکم بندگان عالی سے نہ لیا‘‘۔
’’اسے سائے اپنے ہی میں رکھو۔ اس کے لئے حکم وجہ مقرری کا صادر ہوجاوے گا‘‘۔
’’بندہ پروری اور فیض رسانی پیر و مرشد کرامت پناہ کی ہے۔ سرکار دولت مدار کے ارشاد کی تعمیل بفور ہوگی‘‘۔
’’درست‘‘۔ عالم پناہ نے فرمایا۔
’’خطاب خانی سے مخاطب و معزز کئے جانے پر برخوردار نواب مرزا خان اور اس کی والدہ کی جانب سے یہ بندہ آستانۂ بارگاہ شہنشاہی پر متشکراً ناصیہ سا ہے‘‘۔
اب توشک بردار ایک چاندی کی سینی میں خلعت لئے ہوئے آگے بڑھا۔ شاہزادے نے تین تسلیمیں کرکے تو شہ بردار سے خلعت لے کر پہنی، پھر آگے آکر بادشاہ دیں پناہ کی خدمت میں دوبارہ کورنش ادا کی۔ بادشاہ سلامت نے از راہ بندہ نوازی، جیغہ، سرپیچ اور گوشوارہ اپنے ہاتھ سے شہزادے کے سر پر باندھا۔ پھر مالائے مروارید گلے میں ڈالی، سپر کو پشت سے آویزاں کیا اور تلوار گلے میں حمائل کی۔ شہزادے نے خلعت کی نذر گذرانی، جسے حسب معمول بادشاہ کے ہاتھ سے مس کرکے نذر نثار نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اب بادشاہ نے فاتحہ کو ہاتھ اٹھائے۔ فاتحہ ختم ہوتے ہی نقیب پکارے: ’’دربار برخاست‘‘۔
بادشاہ جمجاہ نے پاؤں تخت سے نیچے لٹکائے، چرن بردار نے سونے سے لپی ہوئی شاہی جوتیاں بانات سے کھول کر نکالیں اور پائے مبارک میں پہنائیں۔ بادشاہ آہستہ آہستہ اندرون محل کی طرف تشریف لے گئے۔ جب آوازیں سنائی دیں کہ بادشاہ سلامت اپنے محل میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں تو حاضرین دربار بھی اپنی جگہ سے ہلے۔ باہر نالکی موجود تھی، وزیر کو حسب سابق سوار کرایا گیا اور نالکی برداروں نے بسم اللہ کہہ کر فتح الملک بہادر کی ڈیوڑھی کا رخ کیا۔ (جاری ہے)