قسط نمبر: 157
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
سہ پہر ہو چکی تھی۔ میرے پاس یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ امر دیپ اپنے بھتیجے کو ساتھ لیے کب تک یہاں پہنچے گا۔ چنانچہ میں نے وقت گزاری کے لیے قلعے کے اندرونی حصے کا رخ کیا۔ قلعہ مبارک بلاشبہ اپنے طرز تعمیر اور پُر شکوہ ماحول کی وجہ سے قابلِ دید تھا۔ تاہم میں مزید آگے جانے کے بجائے امر دیپ کے انتظار میں ایک چبوترے پر بیٹھ گیا۔ جہاں قریب ہی نیلے چوغوں میں ملبوس دو سکھ گائیک ہارمونیم بجاتے ہوئے اپنے مذہبی ترانے گا رہے تھے۔ میرے علاوہ بھی کئی لوگ انہماک اور عقیدت سے وہ ترانے سن رہے تھے۔
خوش قسمتی سے مجھے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ امردیپ کو مانو کا ہاتھ تھامے قلعے کے پھاٹک سے اندر داخل ہوتے دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ان دونوں کی طرف بڑھا۔ مانو مجھے دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھا اور والہانہ انداز میں مجھ سے لپٹ گیا۔ امر دیپ نے خوش گوار لہجے میں پوچھا۔ ’’اور بتاؤ بہادر بھائی جی، کیسا لگا ہمارا پٹیالا؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میری توقع سے زیادہ خوب صورت اور عالی شان۔ واقعی، یہ شہر پوری طرح دیکھنے کے لیے تو ایک ماہ بھی کم ہے‘‘۔
اس نے پُر جوش لہجے میں پوچھا۔ ’’اور موتی باغ محل کیسا لگا؟ میں تو جب بھی وہاں آیا ہوں، حیرت لیے واپس گیا ہوں کہ اتنی عظیم الشان عمارت ہمارے ہی ملک میں ہے۔ کئی بار وہاں جانے کے باوجود میں اس کے تمام حصے نہیں دیکھ سکا‘‘۔
اب مجھے امتحان درپیش تھا کہ بغیر دیکھے اس محل کی تعریف میں قلابے ملاؤں۔ میں نے اسی کی بات سے بات نکالتے ہوئے کہا۔ ’’وہ ہے بھی تو اتنے بڑے رقبے پر۔ ایک کے بعد ایک بڑے سے بڑا ہال، اور باغوں کا تو پیدل چکر لگایا ہی نہیں جا سکتا‘‘۔
اس نے میری باتوں کو سراہتے ہوئے کہا۔ ’’اس میں کوئی شک نہیں۔ تین سو ایکڑ کوئی چھوٹا رقبہ نہیں ہوتا۔ مجھے تو دربار ہال سب سے اچھا لگا۔ سنا ہے کہ وہ لوگ راجا بھوپندر سنگھ اور دیگر مہاراجوں کے استعمال میں رہنے والے ہتھیاروں پر مشتمل ایک عجائب گھر بھی بنانے والے ہیں‘‘۔
پھر اس نے اچانک پوچھا۔ ’’اور وہ باغ میں کھڑی ریل کی بوگی؟‘‘۔
میں نہ کہتے کہتے جانے کیوں ہاں بول گیا۔ مجھے لگا کہ پکڑا جاؤں گا۔ لیکن امر دیپ اپنی ہی دھن میں بولتا چلا گیا۔ ’’حیرت تو ہوئی ہوگی کہ وہاں کوئی ریلوے اسٹیشن ہے نا پٹری۔ تو پھر یہ بوگی وہاں کیا کر رہی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں، میری سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ شاید وہاں کہیں لکھا ہو۔ لیکن مجھے دکھائی نہیں دیا‘‘۔
امر دیپ نے کہا۔ ’’میں بتا دیتا ہوں۔ اصل میں مہاراجا بھوپندر سنگھ کو اعلیٰ نسل کے گھوڑے پالنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ انہوں نے اس وقت کے انگریز وائسرائے سے شرط لگائی تھی کہ اس کے گھوڑے ٹرین سے زیادہ تیز دوڑ سکتے ہیں۔ وائسرائے نے شرط لگالی کہ اگر گھوڑا جیت گیا تو یادگار کے طور پر ٹرین کی ایک بوگی راجا کو پیش کر دی جائے گی۔ ورنہ راجا کو اپنے سب سے پسندیدہ گھوڑے سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ وہ ریس راجا کے لاڈلے گھوڑے بوٹی نے باآسانی جیت لی۔ اور اس طرح یہ بوگی ہمیشہ محل کی زینت بن گئی‘‘۔
میرے ساتھ ساتھ مانو بھی یہ داستان بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ اس نے بوٹی گھوڑے کی جیت پر خوشی سے تالی بجائی اور ساتھ ہی فرمائش کی۔ ’’تایا جی، تایا جی… مجھے وہ بوٹی گھوڑا دکھاؤ… میں اس کی سواری کروں گا‘‘۔
میں نے اس کی پیٹھ پر ہلکا سا دھموکا جماکر کہا۔ ’’یار مانو، وہ گھوڑا بے چارہ تو اب تک بوڑھا ہوکر مرگیا ہوگا۔ تم اس پر بیٹھ کر کیا کرو گے؟ ویسے بھی تمہیں تو جیپ میں سونا اچھا لگتا ہے ناں؟‘‘۔
میری بات سنتے ہی اس کے چہرے پر خفگی کے آثار ابھر آئے اور اس نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’آپ کیا مجھے تایا جی سے دوبارہ ڈانٹ پڑوانا چاہتے ہیں؟ اتنی مشکل سے ان کا غصہ اترا تھا‘‘۔
میں نے امر دیپ کی طرف دیکھ کر حقیقی شکوہ کیا۔ ’’میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ مانو کوکچھ نہیں کہنا ہے۔ پھر بھی آپ نے میرے دوست کو ڈانٹا۔ جائیے میں آپ سے بات نہیں کرتا۔ مانو، تم بھی ان سے کٹی کرلو‘‘۔
مجھے حیرت ہوئی کہ میری بات سن کر وہ ننھا سا بچہ اپنے تایا کے دفاع پر اتر آیا۔ ’’ایسا نہ کہو بہادر بھائیا جی۔ تایا جی نے مجھے غصے سے تھوڑی ڈانٹا ہے۔ پھر غلطی بھی تو میری تھی۔ مجھے ان کی اجازت کے بغیر گاڑی میں نہیں چھپنا چاہیے تھا‘‘۔
میں نے پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ جبکہ امر دیپ نے جھک کر اس کی پپی لے لی۔ میں نے امر دیپ کو کہا۔ ’’مجھے یہ تشویش ستا رہی ہے کہ مانو کے اس طرح غائب ہوجانے سے کہیں حویلی میں گھر والے نہ پریشان ہو رہے ہوں‘‘۔ (جاری ہے)