بھارتی تاجرنے ملازمین کیلئے تجوری کا منہ کھول دیا

ضیاء الرحمان چترالی
بھارتی بزنس مین نے مذہبی تہوار دیوالی کے موقع پر اپنے ملازمین کیلئے تجوری کا منہ کھول دیا اور انہیں اتنے تحائف سے نوازا کہ اس کی دریا دلی کی دھوم مچ گئی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق گجرات میں ہیروں کے مشہور تاجر ساوجی بھائی ڈھولکیا نے دیوالی کے تہوار پر اپنے 600 مستحق ملازمین کو گاڑیاں تحفے میں دیں، جن میں قیمتی برانڈز بھی شامل ہیں۔ ڈھولکیا ہیروں کی ایک کمپنی شری ہری کرشنا ایکسپورٹس کے مالک ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ اپنے ملازموں کو مراعات دینے کے باعث دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور اس بار انہوں نے کان سے ہیرے نکالنے والے مزدوروں کو قیمتی گاڑیاں دی ہیں۔ اس ضمن میں چار محنتی اور قابل ملازمین کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی گاڑیوں کی چابیاں پیش کریں گے، جن میں ایک معذور خاتون بھی شامل ہے۔ مراعات دینے کیلئے 1500 ملازمین منتخب کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 600 ملازمین کو کاریں اور بقیہ 900 ملازمین کو فکسڈ ڈپازٹ منافع سرٹیفکیٹس دیئے گئے ہیں۔ 2011ء سے یہ کمپنی اپنے ملازمین کو 50 کروڑ روپے کے بونس، 500 فلیٹس اور زیورات تحفے بھی دے چکی ہے۔ ملازمین کو دی جانے والی 600 کاروں میں مقامی اور درآمد شدہ گاڑیاں شامل ہیں، جن میں مرسڈیز بینز جی ایل ڈی، ڈاٹسن ریڈی، ماروتی سوزوکی، فیاٹ اور دیگر برانڈز شامل ہیں۔ بھارتی اخبار ڈیلی آگ کے مطابق ساوجی بھائی ڈھولکیا کی دریا دلی کا ذکر پوری دنیا میں ہونے لگا ہے۔ انہوں نے 525 ملازمین کو لاکھوں روپے کی جیولری بھی دی ہے۔ 200 ایسے ملازمین کو دو کمرے کے فلیٹ ملے ہیں، جن کے پاس گھر نہیں تھے۔ ساوجی بھائی نے کہا کہ اب وہ ہیرے کی پالش کرنے والے اپنے ملازمین کو ڈائمنڈ انجنیئر کہا کریں گے۔ ڈھولکیا نے 1991ء میں اپنے تین بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک کروڑ روپے کی رقم سے بزنس کی شروعات کی تھی۔ آج کی تاریخ میں ان کا بزنس 6000 کروڑ روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈھولکیا پرائمری پاس بھی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے زندگی میں کبھی پڑھائی نہیں کی۔ ایسے میں ہم اپنے تجربے سے روزانہ پڑھائی کرتے ہیں۔ میں نے چار کلاس تک ہی تعلیم حاصل کی۔ 12 سال کی عمر میں پڑھائی چھوڑ دی۔ ہم چاروں بھائی مل کر ڈائمنڈ انڈسٹری میں آئے۔ میرا چھوٹا بھائی سب سے زیادہ پڑھا ہوا ہے۔ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں، اس لئے روز پڑھتا ہوں۔ میں زیادہ پڑھا ہوتا تو ایسی سوچ نہیں ہوتی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہاروڈ سے پڑھ کر آتے تو شاید اتنی دریا دلی نہ کرتے۔ ڈھولکیا نے کہا کہ ’’میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے زیرو سے شروع کیا تھا۔ اوپر والے کی عنایت ہے کہ میں اس مقام تک پہنچا۔ ہم اپنے ملازمین کی ایمانداری اور محنت کے دم پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں، ایسے میں منافع میں ان کا بھی حق ہے‘‘۔ ساوجی بھائی نے پچھلی دیوالی میں بھی 100 ملازمین کو گاڑی تحفے کے طور پر دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی ان کے پاس ہے، وہ قدرت کی دین ہے۔ ابھی تک ان کا تجربہ ہے کہ دینے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ تو فطرت کا اصول ہے کہ ایک دانا بونے سے 100 دانے پیدا ہوتے ہیں۔ آج تک انہوں نے جو دیا ہے، اس سے زیادہ ہی انہیں ملا ہے۔ ڈھولکیا نے کہا کہ ’’میں نے تجزیہ کیا کہ آخر ایک کروڑ سے 6 ہزار کروڑ تک پہنچنے میں کس کی سب سے زیادہ شراکت ہے؟ پھر ہم نے سوچا کہ ہمارے 12 سو ملازمین کا سب سے بڑا کردار ہے۔ میں نے 6000 میں 1500 سب سے محنتی ملازمین کا انتخاب کیا اور انہیں جو گفٹ دیا، وہ ان کی محنت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ہم نے ملازمین کو گفٹ دینے میں 50 کروڑ روپے خرچ کئے۔ پہلے سب کو گاڑی دینے کا سوچا تھا۔ پھر ان ملازمین کو گھر دینے کا فیصلہ کیا، جن کے ذاتی گھر نہیں تھے اور وہ منتخب ملازمین جو گھر اور گاڑی کے مالک تھے، انہیں جیولری دے دی گئی‘‘۔ ڈھولکیا کا کہنا تھا کہ میں اپنے ملازمین انڈیا میں سب سے زیادہ تنخواہ دیتا ہوں۔ یہاں مزدور کی تنخواہ انجینئر کے برابر ہے۔ میرے 1200 ملازمین نے 10 کروڑ کا ٹی ڈی ایس بھرا ہوا ہے، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی سیلری کتنی ہوگی۔ میں سوشل بزنس کر رہا ہوں، میرے ملازم ملک کے 21 ریاستوں سے ہیں۔ یہ 361 گائوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان تمام کے والدین کو میں جانتا ہوں، اپنے مسلم ملازمین کے والدین کو عمرے و حج کراتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ملازمین کو نوازنے سے دوسری کمپنیوں کو بھی ترغیب ملے گی، میں نے اپنے ملازمین کے لئے کرکٹ، والی بال، ٹینس کورٹ، سوئمنگ پول اور جم کا بھی اہتمام کیا ہے۔ گزشتہ روز این ڈی ٹی وی کے سینئر اینکر رویش کمار نے ڈھولکیا کا ایک خصوصی انٹرویو لیا۔ اس دوران نہایت دلچسپ سین اس وقت دیکھنے کو ملا جب اینکرنے ان سے پوچھا کہ کہیں آپ نے کارل مارکس کو تو نہیں پڑھا ہے، کیا میں ایک کمیونسٹ مزاج تاجر سے بات کر رہا ہوں تو ڈھولکیا نے کہا کہ ’’کمیونسٹ کا گجراتی بولو بھیا، میں زیادہ ہندی نہیں جانتا!!‘‘

Comments (0)
Add Comment