امت رپورٹ
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی گرفتاری دسمبر تک متوقع ہے۔ اس معاملے سے آگاہ باخبر ذرائع کے مطابق دونوں بہن بھائیوں کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں اہم شواہد اکٹھے کئے جا چکے ہیں۔ جس کے بعد گرفتاری کے حوالے سے حتمی مشاورت کی جا رہی ہے۔ جعلی اکائونٹس کیس میں اس وقت سابق صدر اور ان کی بہن عبوری ضمانت پر ہیں۔
آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف ایف آئی اے 30 سے زائد جعلی اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نجف مرزا کی سربراہی میں ایک سات رکنی جے آئی ٹی یہ تفتیش کر رہی ہے۔ حسین لوائی اور طہٰ رضا کو اس کیس میں پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا ہے اور دونوں اس وقت جیل میں ہیں۔ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں جیل میں پھسل کر گر جانے کے سبب طہٰ رضا کے گھٹنے میں فریکچر ہو گیا تھا۔
بینکنگ کورٹ نے 16 اکتوبر کو آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی عبوری ضمانت میں تیسری بار 13 نومبر تک توسیع کی تھی۔ پارٹی ذرائع کے بقول بعض پی پی رہنمائوں کو اگلی سماعت پر سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ کی عبوری ضمانت منسوخ ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں دونوں سیاسی رہنمائوں کی گرفتاری ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اسی خدشے کو پیش نظر رکھ کر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت مستقبل کا لائحہ عمل طے کر رہی ہے۔ جس کے تحت نہ صرف سینئر پارٹی رہنمائوں کو اپوزیشن پارٹیوں سے رابطوں کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ بلکہ گرفتاری کی صورت میں بالخصوص سندھ اور پنجاب میں بھرپور احتجاج کی حکمت عملی بھی زیر غور ہے۔ اس سلسلے میں اگرچہ ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ تاہم پارٹی کے صوبائی اور ضلعی عہدیداروں کو تیار رہنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری نے بھی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیا ہے۔ اور یہ کہ سابق صدر کی تازہ پریس کانفرنس مفاہمت کی آخری کوشش تھی۔ پارٹی رہنمائوں سے مشاورت کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس کے ذریعے وہ دو طرح کے پیغامات دینا چاہتے تھے۔ ایک یہ کہ اگر ہاتھ ہلکا رکھا جائے تو اب بھی وہ مفاہمت پر تیار ہیں۔ بصورت دیگر نون لیگ سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر مزاحمت کریں گے۔
اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بذریعہ پریس کانفرنس آصف زرداری کی جانب سے دیئے جانے والے پیغام کے باوجود ذمہ داروں نے کسی قسم کی ڈیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم ان ذرائع کا دعویٰ تھا کہ نومبر کے بجائے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کو دسمبر تک گرفتار کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی کی جانب سے لوٹی ہوئی رقم کا ایک بڑا حصہ واپس کرنے کی پیشکش ٹھکرا دی گئی ہے، جس پر تنگ آ کر آصف زرداری نے پریس کانفرنس میں اپنے دل کی باتیں عام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ کیس میں نہ صرف آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بلکہ کرپشن کیسوں میں پارٹی کے دیگر اہم رہنمائوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔ اور یہ کہ سلسلہ گرفتاریوں تک نہیں رکے گا، بلکہ سندھ میں بلوچستان ماڈل طرز کی تبدیلی پر کام بھی جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق دراصل یہ اس پلان کا احیا ہے، جو 25 جولائی کے الیکشن سے پہلے صوبے میں پیپلز پارٹی کی متبادل قیادت لانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ لیکن بوجوہ اس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔ جس کا گلہ آج تک گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کو ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی سابق حکومت کے خاتمے کے لئے پارٹی ارکان کی ایک قابل ذکر تعداد نے بغاوت کر کے الگ گروپ بنا لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں نون لیگ کی صوبائی حکومت بلوچستان اسمبلی میں اپنی اکثریت سے محروم ہو گئی تھی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسی طرز پر سندھ میں تبدیلی پر کام جاری ہے اور اس تبدیلی کا حصہ بننے کے لئے پیپلز پارٹی کے دو درجن سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی نے ہامی بھر لی ہے۔ جبکہ پرانے پلان پر عمل کے لئے ایک بار پھر گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) کو میدان میں لایا گیا ہے۔ جی ڈی اے کی سندھ اسمبلی میں اس وقت 14 سیٹیں ہیں۔ ذرائع کے بقول متحدہ قومی موومنٹ کی 21 اور تحریک انصاف کی 24 سیٹوں کو ملا کر یہ تعداد 64 ہو جاتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کے 20 سے 25 ارکان پر مشتمل فارورڈ بلاک بن جاتا ہے تو کل ارکان کی تعداد 89 کے قریب ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس صورت میں تحریک لبیک پاکستان کے 3 اور متحدہ مجلس عمل کے ایک رکن کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے گی۔ تاکہ موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنایا جا سکے۔ جنہیں اس وقت اپنے 99 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم فارورڈ بلاک بننے کی صورت میں یہ تعداد کم ہو کر 73 یا 74 ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس پلان پر عمل کی ڈیڈ لائن جنوری 2019ء کی آخری تاریخیں ہیں۔ تاہم اس وقت کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ڈیڈ لائن میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔
پس پردہ ہونے والے اس عمل میں شریک ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ان کے بیشتر ساتھیوں کو شکوہ ہے کہ اگر یہی کرنا تھا تو پھر سندھ میں پیپلز پارٹی کو حکومت کیوں دی گئی؟ ذریعے کے مطابق اس سوال کا واضح جواب تو انہیں نہیں مل سکا۔ تاہم اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ اہم لوگوں میں یہ بحث چل رہی تھی کہ نواز لیگ کے خلاف یکطرفہ کارروائی سے ذمہ داروں کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ذریعے کے بقول اس سلسلے میں سب سے مضبوط آرگومنٹس سندھ میں ذمہ داری نبھا کر جانے والے ذمہ داروں کے تھے۔ جنہوں نے صوبے میں کرپشن نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھی، بلکہ اس سلسلے میں ٹھوس شواہد بھی جمع کئے تھے۔ ذریعے کے مطابق اس سلسلے میں ہونے والی طویل بحث اور مشاورت کے بعد حتمی طور پر طے کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے جن رہنمائوں کے خلاف کرپشن کے الزامات ہیں، انہیں بھی رعایت نہ دے کر بلا امتیاز احتساب کو یقینی بنایا جائے گا۔ ذریعے نے اعتراف کیا کہ پرانے اور ادھورے پلان پر دوبارہ عمل کرنے پر جی ڈی اے میں شامل بعض رہنمائوں کو تحفظات ہیں۔ کیونکہ ماضی کے تجربے کی تلخی ان میں اب بھی باقی ہے۔ لیکن ان کے پاس اس آپشن کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اس بار بھی سندھ میں متبادل قیادت سے متعلق پلان پر عمل کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تاہم آج کی تاریخ تک اس پلان پر عمل جاری ہے۔ ذریعے کے مطابق اگر پلان پر عمل ہو جاتا ہے تو پھر سندھ کی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدواروں میں مخدوم جمیل الزماں سرفہرست ہوں گے۔ جو ایک عرصہ سے یہ خواہش دل میں لئے بیٹھے ہیں۔ ذریعے نے بتایا کہ 25 جولائی کے عام انتخابات سے پہلے جب سندھ میں پیپلز پارٹی کی متبادل قیادت لانے کے لئے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس تشکیل دیا گیا تھا تو ان دنوں مخدوم جمیل الزماں نے بھی نے جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگارا سے کئی ملاقاتیں کی تھیں۔ اور بعد ازاں ہالا کے بااثر سیاسی مخدوم خاندان نے پیپلز پارٹی سے راستے الگ کر کے آزادانہ حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے شکوہ شکایت دور کرنے کی یقین دہانی اور ذریعے کے بقول الیکشن کی ہوا تبدیل ہو کر پیپلز پارٹی کے حق میں جاتی دیکھ کر مخدوم جمیل الزماں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا تھا۔ 25 جولائی کے عام انتخابات کے موقع پر مخدوم فیملی کے تین ارکان نے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں۔ مخدوم جمیل الزماں اس وقت مٹیاری سے پیپلز پارٹی کے ایم این اے ہیں۔ جبکہ ان کے چچا مخدوم رفیق الزماں رکن صوبائی اسمبلی اور بیٹے مخدوم محبوب الزماں صوبائی وزیر ریوینیو ہیں۔ ذریعے کے مطابق پلان کامیاب ہو جانے کی صورت میں مخدوم جمیل الزماں کے لئے ان کے بیٹے محبوب الزماں اپنی صوبائی نشست خالی کر سکتے ہیں۔ تاکہ ان کے وزیر اعلیٰ بننے کا راستہ ہموار ہو جائے۔