حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

قسط نمبر44
سید ارتضی علی کرمانی
نفس پر صبر:
ایک مر تبہ کا ذکر ہے کہ حضرت شفیق بن ابراہیمؒ نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ کو مکہ مکرمہ کے ایک بازار میں (جو کہ حضور اقدسؐ کی جائے ولادت والے مقام کے نزدیک ہے) دیکھا۔ آپ راستہ سے ہٹ کر ایک کنارہ پر بیٹھے ہوئے تھے اور رو رہے تھے، میں بھی اپنا راستہ چھوڑ کر ان کے قریب چلا گیا اور ان سے رونے کا سبب پوچھا۔
حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ نے فرمایا: خیریت ہے، میں نے دو تین مرتبہ استفسار کیا تو آپ نے فرمایا: اگر تم کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کرو گے تو پھر تم کو بتاؤں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے آپ ارشاد فرمائیں۔ چنانچہ آپ فرمانے لگے کہ تیس سال سے میرا دل حریرہ کھانے کیلئے مجھے تنگ کر رہا تھا، لیکن میں بڑی کوشش اور صبر سے اس کو روکتا تھا۔ کل رات کے وقت میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے اونگھ آنے لگی۔ اسی اثناء میں ایک شخص سبز پیالہ ہاتھ میں لے کر آیا۔ اس پیالے میں بھاپ اڑ رہی تھی اور حریرہ کی خوشبو آرہی تھی، میں نے ہمت کر کے اپنے نفس کو روکا، اس شخص نے پیالہ میرے نزدیک کر کے مجھ سے کہا: اے ابراہیم! اس کو کھالے۔
میں نے کہا کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا ہے، ہر گز نہیں کھاؤں گا۔ اس نے کہا: رب تعالیٰ کھلا دے تو کھالینا چاہیے، مجھے اس کا کوئی جواب نہ سوجھا اور میں رونے لگا۔ اس نے پھر مجھ سے کہا کہ لو اس کو کھالو، میں نے کہا کہ ہمیں حکم ہے کہ جب تک معلوم نہ ہو کہ کھانا کہاں سے آیا ہے اس وقت تک ہاتھ نہ ڈالیں۔
اس نے جواب دیا کہ اسے کھاؤ، یہ تمہارے لیے ہی آیا ہے، مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اے اضطرس پیالے کو لے جا اور حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ کے نفس کو کھلا دے، اس لئے کہ اس نے بڑی مدت سے اپنے نفس پر صبر کر کے اس کو روک رکھا ہے۔ اب اس پر رب تعالیٰ نے رحم کیا ہے اور اے ابراہیم! یہ بھی یاد رکھو کہ میں نے فرشتوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص حق تعالیٰ کی عطا کو نہیں لیتا تو پھر اگر طلب کرتا ہے تو نہیں ملتی۔ میں نے کہا یہ بات ہے تو میں تمہارے سامنے ہوں، اس کا معمہ رب تعالیٰ ہی حل فرمائے گا۔
حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا، اس نے پہلے کچھ دیا اور کہا کہ تم ہی اپنے ہاتھ سے کھلا دو۔ چنانچہ اس نے میرے منہ میں لقمہ ڈالنا شروع کیا، حتیٰ کہ میں سو گیا، جب بیدار ہوا تو اس کا ذائقہ اپنی زبان پر محسوس کیا ۔
حضرت شفیق بن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے اپنی بات ختم کی تو میں نے ان سے کہا کہ اپنا ہاتھ آگے کریں۔ میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چوم لیا اور رب تعالیٰ سے دعا کی۔ اے باری تعالیٰ! جو لوگ اپنی خواہشات کو اچھی طرح روکتے ہیں تو ان کی خواہش پوری کرتا ہے، تو ہی دلوں میں یقین ڈالتا ہے، تو ہی ان سے دلوں کو مطمئن رکھتا ہے، خدایا! اپنے بندے شفیق پر بھی نگاہ کرم فرما۔
پھر حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ کا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: خدایا! اس ہاتھ کی اور اس ہاتھ والے کی برکت سے اور اس انعام کی برکت سے جو تو نے ان پر کیا ہے، اپنے عاجز بندہ پر بھی عنایت فرما جو تیرے ہی فضل و کرم، احسان و رحم کا محتاج ہے، اگرچہ اس کا حقدار نہیں، پھر وہ اٹھ کر کھڑے ہوئے اور چلتے ہوئے حرم شریف میں داخل ہوگئے۔‘‘ (احیاء العلوم)
بلند مرتبہ:
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ مکہ مکرمہ میں حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ کی ملاقات حضرت شفیق بلخیؒ سے ہوئی۔ حضرت ابراہیمؒ نے دریافت فرمایا: اے شفیق بلخی! یہ بلند مرتبہ تمہیں کیسے حاصل ہوا؟حضرت شفیق بلخیؒ نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ میں ایک بیابان سے گزر رہا تھا کہ وہاں پر میری نظر ایک ایسے پرندہ پر پڑی جس کے دونوں بازو ٹوٹے ہوئے تھے۔ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دیکھتا ہوں اس پرندے کو رزق کیسے ملتا ہے۔ چنانچہ میں وہاں پر بیٹھ گیا، تھوڑی دیر کے بعد وہاں پر ایک پرندہ آیا، اس کی چونچ میں ایک ٹڈی تھی، وہ اس نے اس پرندے کے منہ میں ڈال دی، میں نے اپنے دل میں سوچا وہ پروردگار پوری کائنات کا رازق ہے، اس نے ایک پرندے کا رزق دوسرے پرندے کے ذریعے پہنچا دیا ہے، مجھے بھی میرا رزق ہر حال میں پہنچ سکتا ہے، چنانچہ میں نے تمام کام چھوڑ دیئے اور حق تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہو گیا۔
حضرت ابراہیمؒ نے ارشاد فرمایا: اے شفیق بلخی! تم نے مجبور و معذور پرندہ بننا پسند کر لیا اور تندرست پرندہ بننا پسند نہ کیا۔ تم کو اور بلند مرتبہ حاصل ہوتا، کیا تم نے فرمان نبویؐ نہیں سنا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ مؤمن تو ہمیشہ درجات میں بلندی کی خواہش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ ابرار کی صف میں جگہ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت شفیق بلخیؒ نے حضرت ابراہیمؒ کے ہاتھوں کو چوم لیا، بلا شبہ آپ میرے استاد و محترم ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب)(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment