دوسرا حصہ
ضیاء الرحمٰن چترالی
اٹھائیس ستمبر 2001ء کو ریڈلے مقامی آپریٹروں کی مدد سے ایک افغان فیملی کا حصہ بن کر افغانی برقہ اوڑھ کر بھوک پیاس، گرمی اور گرفتاری کے خوف کے ساتھ جلال آباد کے قریب ایک گاؤں ’’کاما‘‘ کے ایک گھر میں پہنچ گئیں۔ وہ اپنے میزبان خاندان کی عورتوں، بچوں، مردوں اور اسٹوڈنٹس سے کافی دیر تک دوستانہ ماحول میں تبادلہ خیال کرتی رہیں۔ اس افغان خاندان کی مہمان نوازی، غیرت مندی، سادگی، خوش خلقی اور جنگ سے بے خوفی نے ریڈلے کو بہت متاثر کیا۔ وہاں سے اس نے اپنے اخبار کی اسٹوری کے لئے کافی مواد اکٹھا کیا۔ لیکن ریڈلے کی بد نصیبی یا خوش نصیبی دیکھئے کہ جب وہ اسی دن واپس پاکستانی بارڈر کے قریب پہنچیں تو اچانک پاکستان نے سرحد سیل کر دی۔ انہیں رات وہیں ایک ایسے ہوٹل میں رکنا پڑا، جس میں واش روم تھا اور نہ ہی باتھ روم۔ اب اس قافلے کو اسمگلر روٹ کے راستے سے پاکستانی بارڈر کی طرف جانا تھا۔ صحافت میں انفرادیت اور خبر لانے میں اولیت کی خاطر ریڈلے نے اپنی جان داؤ پر لگا دی تھی۔
یہ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ اپنے پیشے سے کتنا پیار کرتی تھیں اور یہ کہ انہیں صحافت کی گہرائیوں سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ صبح پانچ بجے یہ قافلہ ایک اور ٹیکسی میں کچی سڑک پر اپنی اگلی منزل ’’دَور بابا‘‘ کی طرف چل پڑا۔ یہاں پتھریلے پہاڑ اور خو فناک درے ہیں۔ جہاں سے پاکستانی بارڈر تک کا باقی سفر پیدل، گدھوں اور اونٹوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی یہ ’’سوراخ دار سرحد‘‘ چودہ سو میل لمبی ہے، جس میں ’’دَور بابا‘‘ جیسے چار سو غیر قانونی روٹ ہیں۔ ریڈلے کا جسم تھکن سے چور، پاؤں میں چھالے پڑ چکے تھے۔ لیکن اب وہ زند گی کے مشکل ترین دور سے دوچار ہونے والی تھیں۔ وہ افغانی برقعہ پہنے جیسے ہی گدھے پر بیٹھنے لگی، کمبخت نے اچانک آگے کی طرف ایسی جست لگا دی کہ وہ گرتے گرتے بچیں۔ ان کے منہ سے ایک چیخ کے سا تھ ’’انگریزی میں گالی‘‘ نکلی، اس کا کیمرہ بھی نظر آگیا۔ جس کے باعث وہ گرفتار کر لی گئیں۔ ان کا گا ئیڈ ’’جان‘‘ بھی شک میں پکڑا گیا۔ ان کے ساتھ آئی خاتون بھاگ گئی۔ لیکن بین الاقوامی صحافت کی بلبل موت کے منہ میں چلی گئی۔
اس تکلیف دہ سفر میں ایک مقام پر ایک خاتون پولیس اہلکار ریڈلے کی تلاشی لینے لگی۔ ریڈلے مریم لکھتی ہیں ’’میں ایک دم ہجوم کی طرف مڑی اور سرکشی کے انداز میں اپنے کپڑے اوپر اٹھا دئیے۔ یہ ہیں ڈائنامیٹ، یہ ہیں جو میں نے چھپائے ہوئے ہیں‘‘۔ لوگ دوڑنے لگے۔ آگے جا کر ایک اور مقام پر ریڈلے کو بازار میں گھمایا گیا۔ ایک نو عمر لڑکا ریڈلے کو دیکھ کر اپنی گردن پر ایک انگلی پھیرتا ہے، جس کا مطلب تھا کہ ریڈلے کو ذبح کیا جائے گا۔ ریڈلے کو اپنے سنگسار ہونے کا خوف بھی تھا۔ وہ لکھتی ہیں ’’میں نے مجمعے پر نگاہ ڈالی اور خود سے کہا: میرا آخری وقت آپہنچا ہے۔ اب مجھے سنگسار کیا جائے گا۔ مجمع میرے قریب آیا۔ میں اپنی انکھیں بند کر لینا چاہتی تھی، لیکن فوراً خیال آیا کہ اگر آنکھیں کھلی رہیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ان کے اندر جھانک کر مجھ پر ترس کھا لے اور پتھر مانے والوں کو روکنے کی کو شش کرے۔‘‘ ایک انگریز گوری پر کیسی کیسی ڈراؤنی سوچوں کے حملے ہو رہے تھے، خدشات سے اس کا حلق سوکھ رہا تھا اور خون گردش کرنا بھول گیا تھا۔ وہ سات دن جلال آباد اور تین دن کابل کی جیل میں رہیں۔
وہ مغربی پروپیگنڈے کے زیر اثر طالبان کی طرف سے ظلم و ستم اور اذیت ناک موت کا تصور کر رہی تھیں۔ لیکن خدشات کے برعکس ان کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا گیا۔ طالبان کو شک تھا کہ وہ امریکی جاسوس ہے، لیکن تفتیش میں یہ بات ثابت نہ ہو سکی۔ جاسوسی کی سزا موت ہو سکتی تھی۔ اس پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔ اعلیٰ حکام اس سے بار بار مختلف سوالات شائستہ انداز میں پوچھتے رہے۔ اسے کئی سہولتیں حاصل تھیں۔ کھانے پینے کے علاوہ اسے بی بی سی سننے کے لئے ریڈیو دیا گیا۔ ریڈلے جیل حکام کو ڈراتی، ان پر تھوکتی اور بھوک ہڑتال بھی کرتی رہیں، لیکن طا لبان انہیں ’’بہن اور ہماری مہمان‘‘ کہہ کر پکارتے رہے۔(جاری ہے)