معارف القرآن

معارف ومسائل
جس طرح سابقہ آیات میں مجرمین کی سخت سزاؤں کا ذکر تھا، ان آیات میں ان کے بالمقابل مؤمنین صالحین کی عمدہ جزاؤں اور نعمتوں کا بیان ہے، جن میں اہل جنت کے پہلے دو باغوں کا ذکر اور ان میں جو نعمتیں ہیں ان کا بیان ہے، اس کے بعد دوسرے دو باغوں کا اور ان میں مہیا کی ہوئی نعمتوں کا ذکر ہے۔
پہلے دو باغ جن حضرات کے لئے مخصوص ہیں، ان کو تو متعین کر کے بتلا دیا ہے، یعنی ان دو باغوں کے مستحق وہ لوگ ہیں جو ہر وقت ہر حال میں حق تعالیٰ کے سامنے قیامت کے روز کی پیشی اور حساب و کتاب سے ڈرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کسی گناہ کے پاس نہیں جاتے، ظاہر ہے کہ ایسے لوگ سابقین اور مقربین خاص ہی ہو سکتے ہیں۔
دوسرے دو باغوں کے مستحق کون ہوں گے، اس کی تصریح آیات مذکورہ میں نہیں کی گئی، مگر یہ بتلا دیا گیا ہے کہ یہ دونوں باغ پہلے دو باغوں کی نسبت کم درجہ کے ہوں گے۔ یعنی پہلے دو باغوں سے کمتر اور دو باغ ہیں، اس سے بقرینہ مقام معلوم ہوگیا کہ ان دو باغوں کے مستحق عام مؤمنین ہوں گے جو مقربین خاص سے درجہ میں کم ہیں۔
پہلے اور دوسرے دو باغوں کی تفسیر میں حضرات مفسرین نے اور بھی توجیہات بیان فرمائی ہیں، یہاں جو تفسیر اختیار کی گئی ہے کہ پہلے دو باغ سابقین اولین اور مقربین خاص کے لئے ہیں اور دوسرے دو باغ عام مؤمنین کے لئے اور یہ کہ یہ دوسرے دو باغ پہلے دو باغوں سے درجے میں کم ہیں، روایات حدیث سے یہی تفسیر راجح معلوم ہوتی ہے جیسا کہ بیان القرآن میں بحوالہ در منثور یہ حدیث مرفوع نقل کی ہے کہ رسول اقدسؐ نے آیت وَلِمَنْ خَافَ… کی تفسیر میں فرمایا: دو باغ سونے کے بنے ہوئے ہیں، مقربین کے لئے اور دو باغ چاندی کے اصحاب الیمین یعنی عام مؤمنین صالحین کے لئے۔‘‘ نیز در منثور میں حضرت براء بن عازبؓ سے موقوفاً یہ روایت کیا ہے: پہلے دو باغوں کے دو چشمے جن کے بارے میں تجریان فرمایا ہے، وہ بہتر ہیں دوسرے دو باغوں کے چشموں سے جن کے متعلق نضاختان فرمایا ہے، کیونکہ نضاختان کے معنی ہیں ابلنے والے دو چشمے، تو یہ صفت ہر چشمہ میں ہوتی ہے، لیکن جن کو تجریان کے عنوان سے بیان کیا ہے، ان میں ابلنے کے علاوہ دور تک سطح زمین پر جاری رہنے کی صفت مزید ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment