حصہ اول
حضرت سری سقطیؒ فرماتے ہیں:
ایک رات مجھے نیند نہ آئی، میں نہایت درجہ بے چین رہا۔ میں آنکھ تک بند نہ کرسکا، باوجود اس کے کہ اس رات تہجد سے بھی محروم رہا۔ جب فجر کی نماز پڑھ چکا تو گھر سے نکلا، کسی طرح مجھ کو اطمینان نہ ہوا، پھر میں جامع مسجد میں ٹھہر گیا اور ایک واعظ کا وعظ سننے لگا، تاکہ کچھ دل کو راحت ہو۔ میں نے اپنے دل کی ایسی کیفیت محسوس کی کہ اس کی سختی بڑھتی جاتی ہے، میں وہاں سے چل دیا۔ دوسرے واعظ کے پاس ٹھہرا، وہاں بھی دل کا اضطراب کم نہ ہوا، پھر میں نے اپنے دل سے کہا دل کے معالجوں کے پاس جاؤں اور جو لوگ محب کو محبوب کی راہ بتلاتے ہیں، ان سے ملوں، پھر بھی میرے دل کو قرار نہ ہوا اور سختی بڑھتی گئی۔
پھر میں نے کہا: اب میں کوتوالی میں جاؤں، وہاں لوگوں کو کچھ سزا پاتے دیکھ کر شاید کچھ عبرت ہو، مگر وہاں بھی دل کی سختی کم نہ ہوئی۔ پھر میں نے کہا چلو قید خانے کو، شاید ان لوگوں کو جو مبتلائے عذاب ہیں، دیکھ کر دل ڈرے۔ جب میں قید خانہ میں داخل ہوا، اپنے دل کو کھلا پایا اور میرا سینہ کشادہ ہوا۔
ایک لونڈی خوبصورت قیمتی اوڑھنی اوڑھے ہوئے نظر آئی، اس کے پاس سے عطر کی خوشبو آتی تھی۔ پاک نظر نیک دل تھی۔ ہاتھوں میں ہتھکڑی پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، جب مجھ کو دیکھا آنکھوں میں آنسو بھر لائی اور شعر پڑھے جن کا مطلب یہ ہے…
میں تجھ سے پناہ مانگتی ہوں کہ بغیر گناہ کئے میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال کر گردن میں لٹکا دی اور ان ہاتھوں نے کبھی خیانت نہ کی نہ چوری کی، میرے پہلو میں جگر ہے، میں جانتی ہوں وہ جل گیا۔ قسم تیرے حق کی اے دل کی مراد! میں سچی قسم کھاتی ہوں اگر تو میرے دل کے ٹکڑے کر ڈالے، تیرے حق کی قسم کبھی تجھ سے نہ پھرے گا۔
شیخ سریؒ فرماتے ہیں: میں نے داروغہ سے دریافت کیا: یہ کون ہے؟
اس نے کہا: لونڈی ہے، دیوانی ہوگئی ہے، اس کے مالک نے یہاں قید کیا ہے تاکہ درست ہو جائے۔ جب اس لونڈی نے داروغے کا کلام سنا تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔
شیخ سریؒ فرماتے ہیں: میں نے اس سے ایسی باتیں سنیں، جنہوں نے مجھے بے چین کردیا۔ مجھ کو غم دیا، جلایا، رلایا۔ جب لونڈی نے میرے آنسو دیکھے تو کہا: اے سری تمہارا یہ رونا اس (خدا) کی صفت سن کر ہے، کیا حال ہوگا اگر تم اس کو پہچان لو۔
پھر وہ ایک ساعت بے ہوش رہی، جب ہوش آیا تو میں نے کہا: اے لونڈی! جواب دیا لبیک اے سری، میں نے کہا مجھ کو تو نے کیسے پہچانا؟
کہا: جب سے مجھ کو معرفت حاصل ہوئی جاہل نہیں رہی اور جب سے خدمت کی، سست نہ ہوئی اور جب سے وصل ہوا، جدا نہ ہوئی اور مرتبے والے ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔
میں نے کہا تجھ سے سنا ہے کہ تو محبت کرتی ہے، تیرا دوست کون ہے؟ کہا جس نے اپنے محبوں کے ساتھ مجھ کو معرفت دی اور اپنی بڑی عطا کے ساتھ سخاوت کی۔ وہ دلوں کے پاس ہے، محبوں کے طلب گار کا دوست ہے۔ سنتا جانتا ہے۔ پیدا کرنے والا، حکمت والا ہے۔ سخی، کریم، بخشنے والا رحیم ہے۔
میں نے پوچھا: یہاں تجھے کس نے قید کیا؟ کہا حاسدوں نے باہم مدد کی اور قول و قرار کیا، پھر وہ بلند آواز سے چلائی اور بے ہوش ہوگئی۔
میں نے خیال کیا کہ اس نے زندگی ختم کرلی، پھر ہوش میں آئی۔(جاری ہے)