وزیر خانم حجلہ عروسی میں بھی نواب شمس کو یاد کرکے روپڑی

قسط نمبر: 247
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
مرزا فخرو بہادر کے مستقر پر وزیر خانم کے پہنچتے ہی حبیبہ نے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ بڑی بیگم اس کی بلائیں لے کر رخصت ہوئیں۔ مولوی محمد نظیر کی بیوی کو ہدایت تھی کہ تمہیں قلعے میں ٹھہرنا نہیں ہے، بس دلہن کا سب انتظام کر کے الٹے پاؤں واپس آجائیو۔
’’تمہیں اللہ اور اس کے حبیب کی امان میں دیا‘‘۔ اکبری خانم نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’اللہ کرے تمہیں اب سکھ ہی سکھ نصیب ہوں‘‘۔
وزیر نے بڑی کے گلے سے لگ کر سرگوشی میں کہا۔ ’’اللہ بڑی باجی آپ میرے لئے ہر وقت دعا کرتی رہئیے گا‘‘۔
اکبری بیگم کے جانے کے بعد حبیبہ نے جھٹ پٹ وزیر کی ضروری آرائش کر کے اسے شبستان عروسی میں پہنچا دیا۔ وزیر کو ایک عمر پہلے کی وہ رات یاد آئی جب حبیبہ نے نواب شمس الدین احمد خان کے مہمان خانے میں اس کی خدمتیں کی تھیں۔ اس کا دل لہو سے بھر گیا۔ کیا میں اپنے نواب شہید کو کبھی نہ بھول سکوں گی؟ ایسے موقع پر بھی نہیں جب میری کتاب زندگی از سر نو لکھی جارہی ہے؟ وزیر کی
آنکھوں میں آنسو چھلکتے دیکھ کر حبیبہ سمجھ گئی کہ یہ خوشی کے آنسو نہیں، اور ایک طرح دیکھیں تو غم کے بھی نہیں، بلکہ داغہائے سینہ کے سدا بہار پھولوں پر گزشتہ یادوں کی شبنم اس رات کی گل زمین کے سینے میں پیوست ہوجانے کے لئے بچپن ہے۔ حبیبہ نے ہلکی سبز ململ کا بینی پاک لے کر بہت آہستہ آہستہ وزیر کے آنسو خشک کئے اور سرگوشی کے لہجے میں بولی: ’’خانم صاحب، جی کو سنبھالئے۔ شاہزادے صاحب آتے ہی ہوں گے۔ ان دنوں کی یاد تو ہمشہ ہری رہے گی۔ لیکن اس وقت نہیں۔ اللہ اس وقت کے نئے پھولوں کو کھلنے دیجے‘‘۔
وزیر نے ایک سسکی بھر کر سر کے اشارے سے ہاں کہی اور بولی: ’’جی ہے کہ بے وجہ امڈا آتا ہے۔ پر تم ٹھیک کہتی ہو حبیبہ۔ مجھے آپ کو سنبھالنا چاہئے۔ تھوڑا سا پانی پلوادو‘‘۔
’’لیجیے پانی حاضر ہے، لیکن اب میں رخصت ہوتی ہوں۔ دیکھئے آپ کو میری جان کی قسم یہ دکھ کے نشان چہرے سے مٹا ڈالئے‘‘۔
شبستان عروسی میں ہلکے سبز اور ہلکے نیلگوں رنگ کے کنول روشن تھے۔ روشنی دھیمی تھی، لیکن بہت صاف اور سارے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ چھپر کھٹ پورا آرستہ اور اونچا تھا، اتنا کہ پلنگ پر پاؤں دھرنے کے لئے زینہ درکار تھا۔ لکڑی کا زینہ، لیکن بہت بھاری اور اس پر نقش و نگار اس طرح کے بنے ہوئے تھے کہ اس پر پاؤں رکھیں تو پھسلنے کا بالکل امکان نہ تھا۔ حبیبہ نے وزیر کو دلہنوں کی طرح پلنگ پر بٹھا دیا۔ دونوں گھٹنے سینے کی طرف مڑے ہوئے، سر گھٹنو پر ٹکا ہوا، گھونگھٹ سے چہرہ سر پوری طرح ڈھکے ہوئے۔ دونوں ہاتھ ڈوپٹے میں چھپے ہوئے اور گود میں ہلکے رکھے ہوئے۔ لیکن وزیر کے ذہن میں تناؤ اتنا تھا کہ اس کے ہاتھ اور گھنٹوں میں ہلکی سی لرزش تھی۔ حبیبہ کے باہر جانے پر اس نے آنکھیں بند کر لیں، ہر چند کہ اسے اس طرح نویلی دلہن بن کر بیٹھنے پر شرم سی آرہی تھی۔
حبیبہ باہر نکل کر صدر دووازے پر پہنچی ہی تھی کہ مرزا فتح الملک بہادر تشریف لے آئے۔ آگے آگے دو مشالچی، پیچھے دو عصا بردار۔ قلماقنی نے پکارا۔ ’’ولی عہد سوم بہادر سلامت‘‘۔ اور سب کا سلام لیتے ہوئے مرزا فخرو بہادر دروازے کے اندر داخل ہوئے تو ان کی نگاہ حبیبہ پر پڑی۔ ڈھلتی عمر کی، لیکن ناک نقشے سے درست، شرفا جیسا لباس پہنے ہوئے اجنبی عورت کو دیکھ کر وہ ذرا چونکے تھے کہ حبیبہ نے آگے بڑھ کر تین تسلیمن ادا کیں اور نہایت مہذہب لہجے میں کہا: ’’بندی مرشد زادہ آفاق کی خدمت میں تسلیمات عرض کرتی ہے۔ مجھے حبیب النسا کہتے ہیں۔ میں سرکار دلہن بیگم صاحب میں مامور بہ خدمت گزاری ہوں‘‘۔
مرزا فخر کو حبیبہ کا سبھاؤ بھایا۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔ ’’اے آمدنت باعث دلشادی ما، لیکن دلہن بیگم صاحب نہیں، شوکت محل کہیئے۔ آپ کی خانم کا بارگاہ خسروی سے یہی خطاب عطا ہوا ہے‘‘۔
’’سبحان اللہ، کیا مناسب خطاب ہے۔ اللہ آپ دونوں کو مبارک کرے۔ تشریف لے چلیں، حجلہ عروسی آپ کا منتظر ہے‘‘۔
’’ بسم اللہ‘‘۔
حبیب النسا درحجرہ تک ساتھ گئی، پھر آداب کر کے الٹے پاؤں وہاں سے ہٹ آئی۔ مرشد زادہ آفاق مرزا فتح الملک بہادر حسب سابق آہستہ قدم آگے بڑھے۔ ادھر وزیر نے آہٹ جو سنی تو سر اٹھایا اور چاہتی تھی کہ سر و قد کھڑی ہو کر استقبال کرے۔ لیکن مرزا فخرو اب پلنگ تک پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے کہا: ’’تسلیمات عرض کرتا ہوں‘‘۔ پھر انہوں نے ہاتھ بڑھا کر وزیر کو روکا۔ ’’واللہ آپ زحمت نہ کریں‘‘۔ پھر وہ تھوڑی سی ہنسی ہنس کر بولے۔ ’’ہم خود ہی آئے جاتے ہیں۔ اس مبارک موقع پر بارگاہ الٰہی میں جتنا شکر ادا کیا جائے، کم ہے‘‘۔
پھر مرزا فتح الملک بہادر نے پلنگ کے بالکل پاس جاکر دایاں ہاتھ وزیر کے سر پر رکھا اور شعر پڑھاللہ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر می خواستآخر آمد ز پس پردہ تقدیر پدیدچھپر کھٹ کا زینہ طے کر کے مرزا فخر و نے چاہا کہ چھپرکھٹ کے کنارے پر بس ٹک جائیں، لیکن وزیر نے کچھ پریشانی کے عالم میں اپنے پہلو کی جگہ خالی کر کے اٹک اٹک کر کہا: ’’تشریف لائیں۔ بہت جگہ ہے‘‘۔
’’جگہ آپ کے دل میں ہو تو ایک بات بھی ہو۔ چھپر کھٹ پر آپ بیٹھیں نہ بیٹھیں، ہم نے اپنے دل میں آپ کو بٹھالیا ہے‘‘۔
اب وزیر کی ہمت کچھ کھلی۔ ’’اہلاً و سہلاً، یہ شیشہ ایک عمر سے مشتاق سنگ تھا‘‘۔
’’واللہ، کیا مصرع نکال کر لائیں۔ لیکن مشتاقی تو ہم لوگوں کا وظیفہ ہے‘‘۔ مرزا فخرو نے آہ بھری۔ ’’آپ کیا جانیں ہم پر آپ کے فراق میں کیا کیا گزرتی رہی رہے‘‘۔ پھرانہوں نے خواجہ شیراز کا مصرع پڑھا
اِنّی رَائیتُ دھراً مِن ھِجرِکَ القِیامۃ
’’میں نے تمہارے ہجر میں قیامت کا زمانہ دیکھا ہے‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment