سرفروش

قسط نمبر158
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
امر دیپ نے میری تائید کی۔ ’’اس کی گم شدگی کا پتا لگنے پر شروع میں تو گھر والے ضرور پریشان ہوئے ہوں گے۔ لیکن پھر انہوں نے ہم دونوں کی حویلی سے روانگی اور مانو کی گم شدگی کے تعلق کی گتھی سلجھا لی ہوگی۔ یہ شہزادہ اس طرح کی من مانیاں کرنے کا اچھا خاصا ریکارڈ رکھتا ہے۔ ایک بار دادا جی اور میرے پاس گاؤں آنے کی ضد کر رہا تھا۔ جب بشنو اور بھابھی نہیں مانے تو یہ تنہا روانگی کی چپکے چپکے تیاری کرنے لگا۔ وہ تو شکر ہے کہ بڑی بہن نے وہ کپڑے دیکھ لیے، جو اس نے بستے میں رکھے تھے۔ ورنہ یہ پنجاب میل میں سوار ہوجاتا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی‘‘۔
میں نے مانو کا یہ کارنامہ سنا تو بے ساختہ ہنس پڑا، جس کا مانو نے کافی برا منایا اور منہ پھلاکر کہا۔ ’’تو پتا اور مما جی میری بات کیوں نہیں مان رہے تھے؟ میں نے کہا بھی تھا کہ میں نے اپنے جیب خرچ سے کرایہ جمع کر رکھا ہے۔ میں ان سے پیسے نہیں لوں گا‘‘۔
اس کی اس بات پر میرے ساتھ امر دیپ نے بھی قہقہہ لگایا۔ جس سے مانو مزید ناراض ہو گیا اور ہمیں اسے اس کی پسند کی چاکلیٹ دلانے کا وعدہ کر کے منانا پڑا۔ امر دیپ کی رہنمائی میں مجھے قلعے کے خاصے وسیع حصے کی سیر کرنے کا موقع ملا۔ ہم لوگ قلعے سے باہر نکلنے لگے تو مغرب ہو چکی تھی۔
امر دیپ نے جیپ مٹھائی کی ایک بہت بڑی دکان کے سامنے روک دی۔ جس کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ بھی موجود تھا۔ امر دیپ نے بتایا کہ ’’جَگّی‘‘ نام کی یہ طعام گاہ اسے ہمیشہ سے پسند ہے۔ وہاں کھانا کھایا تو اس کے انتخاب کی داد دینا پڑی۔ کھانے سے فارغ ہوکر ہم جیپ میں بیٹھے اور امر دیپ نے واپسی کے راہ لی۔
ہم نے شہر کے کنارے پر واقع بڑی نہر کا پل پار کر لیا تو امر دیپ نے مانو کو کہا۔ ’’اوئے کاکے، نیند آ رہی ہے تو پیچھے جاکر سوجا۔ ٹھنڈ بڑھ رہی ہے‘‘۔
تایا کی بات سن کر مانو نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا۔ ’’ناں جی ناں، مجھے پیچھے نہیں جانا۔ میں نے آتے ہوئے بھی راستے میں کچھ نہیں دیکھا۔ مجھے بالکل نیند نہیں آرہی‘‘۔
ہم دونوں ہی جانتے تھے کہ پختہ ارادوں والے اس بچے کے ساتھ زور آزمائی بے سود ہے۔ لہٰذا ہم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور آپس میں باتیں کرنے لگے۔ مجھے لگا کہ امر دیپ کچھ زیادہ خوش نہیں ہے۔ وہ باتیں تو کر رہا تھا، لیکن اس کے لہجے میں گرم جوشی کی کمی تھی۔ میں نے پہلے نظر انداز کیا۔ لیکن پھر پوچھ ہی لیا۔ ’’خیریت تو ہے امر دیپ بھائی؟ کچھ بجھے بجھے دکھائی دے رہے ہو؟‘‘۔
اس نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’کچھ نہیں یار، بس آج جہاں بھی گیا، جواب میں وعدے وعید ہی ملے۔ کم از کم بیس پچیس ہزار روپے پیشگی ملنے کی امید تھی۔ کُل ساڑھے تین ہزار روپے ہاتھ لگے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’وہ کیا عذر پیش کر رہے تھے؟ یہ وعدہ خلافی کیوں؟‘‘۔
اس نے بتایا۔ ’’نہیں، وعدہ خلافی والی بات تو نہیں۔ بس معمول کے مطابق سنترے کی فصل اٹھانے سے پہلے اکثر بیوپاری ایک چوتھائی، ایک تہائی رقم دے دیا کرتے ہیں۔ اس دورے میں ان میں سے دو نے پھل اتروانے کے لیے آتے ہوئے رقم ساتھ لانے کا وعدہ کیا ہے اور دو نے میلے میں کاروبار میں پیسے لگے ہونے کا عذر کر کے ایک ہفتے کی مہلت لے لی ہے۔ میں آج تک لگ بھگ خالی ہاتھ پھل منڈی سے گھر واپس نہیں گیا۔ اس لیے اچھا نہیں لگ رہا‘‘۔
میں نے اسے دلاسا دیا اور کچھ ہنسی مذاق کی باتیں کر کے اس کا مزاج رفتہ رفتہ بحال کر دیا۔ میری فرمائش پر اس نے پہلے راج کپور اور نرگس کی فلم ’’چوری چوری‘‘ کا گیت ’’آجا صنم اگر چاندنی میں ہم‘‘ سنایا۔ چمک دار چاندنی رات میں مکیش جیسی ہی پُرسوز آواز میں وہ گیت مجھے بہت اچھا لگا۔ پھر اس نے اپنی پسند کے مطابق جھوم جھوم کر ’’اے دل مجھے بتا دے‘‘ گایا۔ جو حیرت انگیز طور پر مانو کو بھی پسند آیا اور اس نے زور زور سے تالیاں بجاکر داد دی۔
اس اثنا میں جیپ ایک چھوٹی نہر کے پل پر سے گزری اور ایک موڑ مڑکر لگ بھگ ایک میل آگے بڑھی۔ دونوں طرف لہلاتی گندم کی فصل چاندنی میں عجیب منظر پیش کر رہی تھی۔ یہاں سڑک کچھ ناہموار اور تنگ ہوگئی تھی۔ امر دیپ نے سامنے کچھ دیکھ کر جیپ کی رفتار آہستہ کی اور پھر اسے اچانک بریک لگانے پڑے۔ میں نے دیکھا کہ سڑک کے دونوں طرف درختوں کی آڑ سے دو گھڑ سوار نکل کر سڑک کے عین درمیان میں آکر اس طرح کھڑے ہوگئے ہیں کہ راستہ بند ہوگیا ہے۔ خطرے کا احساس ہوتے ہی میرا ہاتھ تیزی سے اپنی واسکٹ کی اندرونی جیب میں پوشیدہ ریوالور کی طرف بڑھا۔ لیکن پھر میں نے ہاتھ روک لیا۔ ان گھڑ سواروں میں سے ایک کے ہاتھ میں دو نالی بارہ بور بندوق تھی اور دوسرے نے جرمن طرز کا پستول ہماری طرف تان رکھا تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment