نجم الحسن عارف
نیب نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز کو ان کے بڑے بھائی حمزہ شہباز کے ساتھ بالمشافہ طلب کیا ہے، تاکہ وہ رمضان شوگر ملز کو سہولت اور فائدہ دینے کے لیے بنائے گئے پُل کے بارے میں جواب دیں، جس کا حکم سابق وزیر اعلیٰ نے دیا تھا اور اس پر سرکاری خزانے سے 200 ملین روپے کے اخراجات برداشت کئے گئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سلمان شہباز اپنے والد کی طرح فیملی بزنس کو سب سے زیادہ سمجھنے والے فرد ہیں۔ وہ خاندان کی 29 سے زائد کمپنیوں میں ڈائریکٹرز ہیں۔ اگر وہ 30 اکتوبر کو نیب کو دستیاب ہوتے ہیں تو انہیں اپنے والد میاں شہباز شریف کے آمدنی سے زائد اثاثوں کے بارے میں بھی نیب کے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ سلمان شہباز، دو بیٹیوں کے بعد لاہور کے ایک نجی اسپتال حمید لطیف میں پہلے بیٹے کی پیدائش کی خوشی بھی صحیح طرح نہیں منا سکے اور بیٹے کی پیدائش کے دو دن بعد، یعنی نیب میں بالمشافہ پیش ہونے کی مقرر کردہ تاریخ سے تین دن پہلے اچانک لندن روانہ ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق شریف خاندان کے کاروباری معاملات کیلئے لندن ماضی میں بھی اہم ثابت ہوتا رہا ہے کہ لندن میں بیٹھ کر قانونی مشیروں کے علاوہ خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ زیادہ محفوظ بات چیت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اس لیے ایسے وقت میں جب نیب میاں شہباز شریف کے بارے میں ایک کے بعد ایک نئے الزام کی انکوائری اور تحقیقات کا سلسلہ شروع کر چکا ہے، سلمان شہباز کا پاکستان میں موجود رہنا کافی ’’رسکی‘‘ ہو سکتا تھا کہ ان کے والد پہلے ہی زیر حراست ہیں۔
سلمان شہباز شریف کے اچانک لندن چلے جانے کے بعد ان کے خاندان کی طرف سے اب تک مکمل خاموشی ہے کہ وہ نیب میں 30 اکتوبر اور اس کے بعد 2 نومبر کو دو الگ ایشو پر طلب کئے جانے کے بعد اچانک باہر کیوں چلے گئے یا پیشی کی تاریخوں کے موقع پر وہ واپس پاکستان آسکیں گے یا نہیں؟ پارٹی ذرائع انہیں ایک غیر سیاسی شخسیت قرار دیتے ہیں، اس لیے سلمان شہباز کی لندن روانگی اور وطن واپسی کے شیڈول اور وجوہات سے خود کو الگ رکھتے ہوئے مکمل لاعلمی کرتے ہیں۔ پارٹی ذرائع اس امر سے بھی بے خبر ہیں کہ آج اگر سلمان شہباز پاکستان آکر نیب میں پیش نہیں ہوتے تو ان کی نمائندگی ان کا وکیل کرے گا یا نہیں؟ دوسری جانب نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ سلمان شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو 30 اکتوبر یعنی آج کے روز اصالتاً طلب کیا گیا تھا۔ اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو نیب کو اپنے شیڈول 2 کے تحت مزید کارروائی کا حق ہے اور آئندہ پیشی کیلئے جب انہیں طلب کیا جائے گا تو شیڈول 2 کے حوالے سے بلایا جائے گا۔ اگر کوئی فرد نیب انکوائری میں تعاون نہیں کرتا تو شیڈول 2 کے تحت اسے گرفتاری بھی کیا جا سکتا ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق اگر سلمان شہباز شریف آج پیش نہ ہوئے تو اس سے پیدا ہونے والے سیناریو پر بعد میں ہی غور کیا جائے گا۔ ایک سوال پر ان ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا اگر ان کا کوئی وکیل آتا ہے تو پہلی بات تو یہ کہ وکیل کو نیب نے بلا نہیں رکھا۔ دوسری بات یہ کہ اگر وہ صرف وقت گزاری کیلئے وکیل بھیجتے ہیں تو رسپانس الگ ہوگا اور کوئی معقول وجہ سامنے آتی ہے تو اس بارے میں ان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں سہولت بھی دی جا سکتی ہے۔ لیکن حتمی فیصلہ آج کے بعد ہی کیا جائے گا۔ نیب ذرائع کے مطابق رمضان شوگر ملز کو فائدہ پہنچانے کیلئے شوگر ملز کے ڈائریکٹرز نے سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ اس لیے حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو اس معاملے میں طلب کرنے سے پہلے شوگر ملز کے بعض دیگر ڈائریکٹروں اور حکام کو بھی بلایا جا چکا ہے۔ ان سے کئے گئے سوال و جواب کے بعد ہی نیب حکام نے ضروری سمجھا کہ اب حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو بھی بلایا جائے۔ جبکہ ان کے والد سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف پہلے ہی نیب کی حراست میں اور 7 نومبر تک ریمانڈ پر ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شریف خاندان نہیں چاہتا کہ رمضان شوگر ملز کے ڈائریکٹرز کے طور پر ہی سہی حمزہ اور سلمان نیب میں پیش ہوں۔ کیونکہ ان سے امکانی طور پر الگ الگ سوال و جواب ہوں گے، جس سے معاملہ الجھ بھی سکتا ہے۔ اس لیے بہتر سمجھا گیا کہ ایک ہی وقت میں دونوں بھائیوں کو سوال و جواب کے ماحول میں نہ بھیجا جائے، جس سے کوئی کنفیوژن پیدا ہو۔ نیز قدرے تاخیر سے پیش ہونے سے سلمان کو کچھ تیاری کا موقع مل جائے۔ خیال رہے اس سے قبل سابق وزیر اعلیٰ کے داماد علی عمران یوسف بھی صاف پانی کمپنی کیس میں نیب میں طلب کئے گئے تھے، لیکن وہ اچانک لندن چلے گئے۔ اب نیب انہیں مسلسل عدم پیشی پر اشتہاری قرار دے چکا ہے۔ اگر اس ’’پیٹرن‘‘ کو دیکھا جائے تو سلمان شہباز کچھ زیادہ دن لندن میں قیام کر سکتے ہیں۔ نواز لیگ کے ذرائع کے مطابق سلمان شہباز کی گرفتاری ہو گئی تو شریف خاندان کیلئے بزنس کے شعبے میں زیادہ مشکلات ہو سکتی ہیں کہ وہ ہر کاروباری شعبے میں شریف خاندان کے معاملات کسی بھی دوسرے فرد سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اس ناطے وہ شریف خاندان کے انتہائی قیمتی اور اہم افراد میں شامل ہیں۔ اس لیے وقتی طور پر انہیں لندن بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کیونکہ نیب کے زیر حراست میاں شہباز شریف کے حوالے سے ایک جانب نیب عدم تعاون کا الزام عائد کر رہا ہے تو دوسری جانب میاں شہباز شریف، نیب کی سختی کی شکایت کرتے سنائی دیتے ہیں کہ کینسر کا مریض ہونے کے باوجود نیب ان کو طبی معائنے کی اجازت دینے کو بھی آمادہ نہیں۔ اس ماحول میں شریف خاندان کی حکمت عملی یہ ہے کہ مزید کسی بھی گرفتاری سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کی جائے۔