نذر الاسلام چودھری
انڈونیشیا میں لائن ایر لائنز کے مسافر بردار طیارے کی تباہی معمہ بن گئی۔ ہوائی جہاز کو بوئنگ کمپنی نے تین ماہ پہلے ہی تیار کیا تھا، جو موسم ٹھیک ہونے کے باوجود ٹیک آف کے 15 منٹ بعد ہی کریش کرگیا۔ بوئنگ 737 کا ملبہ سمندر میں پڑا ہے، جبکہ ریسکیو حکام نے تمام مسافروں اور جہاز کے عملے کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ بدقسمت جہاز میں 181 مسافروں سمیت 189 افراد موجود تھے۔ طیارہ ساز بوئنگ کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ طیارے کو آزمائشی پروازوں کے بعد اس کو مکمل طور پر فٹ اور طویل و قلیل فاصلوں کے سفر کیلئے موزوں قرار دیا جا چکا تھا، جس کی وجہ سے انڈونیشی ایوی ایشن ماہرین بھی کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ وزارت دفاع اور ایوی ایشن انڈسٹری کے ماہرین اس ضمن میں تحقیقات کے نکات طے کرنے کیلئے میٹنگز کر رہے ہیں۔ مسافروں کی لاشوں اور سامان کی تلاش کیلئے بحری جہازوں، ہیلی کاپٹرز اور نیول فورسز کی آبدوزوں کو علاقے میں بھیجا جاچکا ہے۔ جبکہ انڈونیشی حکام نے تصدیق کی ہے کہ سیٹلائٹس تصاویر کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے کہ سمندری خطے میں تباہ شدہ بوئنگ 737 جہازکا ملبہ پڑا ہے۔ ایک ہزار سے زیادہ امدادی کارکنان طیارے کے ملبے سمیت مسافروں کی لاشیں تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ بیشتر اداروں کا کہنا ہے کہ چونکہ طیارہ اچانک سمندر میں کریش ہوکر گرا ہے، اسی لئے خیال کیا جاتا ہے کہ تمام لاشیں طیارے کے اندر ہی ہیں، کیونکہ ان کی سیٹ بیلٹس بندھی ہوں گی۔ بدقسمت طیارہ بوئنگ 737 میکس 8 اگست 2018 میں ہی کمپنی کے حوالہ کیا گیا تھا، جس کو ستمبر میں آپریشنل کیا گیا۔ بوئنگ کمپنی کے ایک ترجمان پال لوئیس نے تصدیق کی ہے کہ لائن ایئر کے مذکورہ طیارے کی تباہی کا انہیں علم ہے اور کمپنی اس سانحے اور طیارے کی تباہی کے اسباب کے جاننے کیلئے تحقیقات کر رہی ہے۔ انڈونیشی ادارے نیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے مطابق طیارے کا ملبہ جاوا کے سمندروں کے پاس تہہ میں 115 فٹ کی گہرائی میں پایا گیا ہے۔ ادھر عالمی جریدے کوارٹرز نے بتایا ہے کہ نئے طیارے کی تباہی نے انڈونیشین ایوی ایشن انڈسٹری کیلئے مسائل پیدا کردیئے ہیں کیونکہ انڈونیشیائی ایوی ایشن انڈسٹری کا ٹریک ریکارڈ مسلسل خراب رہا ہے اور فلائٹس سیفٹی کے لحاظ سے اس کی ناقص کارکردگی کے باعث امریکا اور یورپی یونین نے 2007 میں ہی انڈونیشی طیاروں کی یورپ اور امریکا آمد پر پابندیاں عائد کردی تھیں جو رواں سال کی پہلی سہہ ماہی میں اُٹھائی گئی۔ لیکن اب ایک نئے حادثہ نے جہاں مسافروں کے قلوب و اذہان میں خوف بٹھا دیا ہے تو دوسری جانب انڈونیشی ایوی ایشن پر پھر پابندی کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔ انڈونیشی اور عالمی تحقیقی اداروں کا کہنا ہے کہ ایئر ٹریفک کنٹرولرز نے بتایا ہے کہ طیارے کی تباہی ایک معمہ ہے اور وہ تصدیق کرسکتے ہیں کہ طیارے کے کپتان کی جانب سے ٹیک آف کے دس منٹس کے بعد ہی انہیں جکارتہ ایئر پورٹ پر واپس لینڈ کرنے کی درخواست دی گئی تھی لیکن اس پیغام کے فوری بعد طیارے کا ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور سے رابطہ ختم ہوگیا اور اس کے بعد کپتان کی جانب سے ٹیکنیکل فالٹ یا کسی اور مسئلہ پر ایمر جنسی کال نہیں کی گئی جس سے یہ الجھن پیدا ہوئی ہے کہ طیارے کے ساتھ اچانک کیا معاملہ پیش آیا کہ طیارے کے کپتان کو ایمر جنسی پیغام (distress signal) دینے کا بھی موقع نہیں ملا۔ لائنز کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو ایڈوارڈ سیرائیت نے میڈیا ٹاک میں تسلیم کیا ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ طیارے کے ساتھ کیا ہوا، میں کنفیوژڈ ہوں، یہ بالکل نیا طیارہ تھا، اس کے دونوں پائلٹ، مرکزی پائلٹ بھاوے سونیجا اور معاون انتہائی مشاق ہیں اور دونوں کو 17,000 گھنٹوں سے زیادہ کا پرواز کا تجربہ تھا۔ جبکہ پرواز کے وقت موسم بھی خراب نہ تھا جس کی وجہ سے الجھنیں بڑھ رہی ہیں۔ جکارتہ پوسٹ کے مطابق لائن ایئر لائنز کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا ہے کہ پچھلی پرواز میں اسی طیارے میں ایک ٹیکنیکل فالٹ پیدا ہوگیا تھا جو معمولی تھا اور اس کی اطلاع ملنے پر انجینئرز نے اس فالٹ کو فوری دور کردیا تھا۔ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ لائنز ایئر لائن کی جانب سے رواں برس میں بوئنگ کمپنی کو مزید 50 سلم باڈی طیاروں کی خریداری کا آرڈر دیا گیا تھا جو ایڈوانس ٹیکنالوجی کے حامل ہیں۔ بوئنگ کمپنی کے ترجمان نے کہا ہے کہ طیارے کے حادثہ کی جانچ کیلئے کمپنی ٹیکنیکل مدد کیلئے تیار ہے اور اس کے کئی ماہرین کی ٹیمیں انڈونیشی دار الحکومت جکارتہ پہنچ رہی ہیں۔ انڈونیشی ایئر ٹریفک کنٹرولر نے انکشاف کیا ہے کہ طیارہ صبح چھے بجکر بیس منٹ پر اڑان بھرنے کے بعد صرف بارہ منٹس کے بعد چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر پایا اور اچانک ریڈار سے غائب ہوگیا اس وقت طیارہ سمندر کے اوپر بنکاک کی سمت پرواز کررہا تھا۔ اپنی ایک رپورٹ میں انڈونیشی جریدے جکارتہ پوسٹ نے بتایا ہے کہ انڈونیشی وزیر خزانہ سری مولیانینے تصدیق کی ہے کہ طیارے کی تباہی کو سازشی نظریہ سے بھی دیکھا جارہا ہے کیونکہ طیارے پر انڈونیشی وزارت خزانہ کے بیس سینئر افسران سفر کررہے تھے۔ فلائٹس ریڈار 24 نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ لائن ایئر کا طیارہ ٹیک آف کے بارہ منٹس کے بعد ہی گر گیا۔ سرکاری آئل کمپنی پرتامینا کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ سیٹیں، مسافروں کے موبائل فونز، طیارے کے ٹکڑے، جیکٹیں اور دیگر سامان بکھرا پڑا ہے اور یہ ملبہ آئل ریفائنری سے کچھ فاصلہ پر ہے۔ انڈونیشی ٹرانسپورٹ سیکورٹی سیفٹی کمیٹی کا کہنا ہے کہ ڈیٹا فلائٹس ریکارڈر، کاک پٹ وائس ریکارڈ سمیت بلیک باکس کو ریکور کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایوی ایشن جریدے فلائٹس گلوبل کے منیجنگ ایڈیٹر گریگ والڈرون کا کہنا ہے کہ ممکنہ ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ انڈونیشیا کی تاریخ میں دوسرا بڑا سانحہ ہوگا۔ پہلا سانحہ 1997 میں میدان شہر میں پیش آیا تھا جب ایئر بس A-300 کے کریش میں 214 مسافر اور اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ واضح رہے کہ انڈونیشیائی فضائی کمپنی لائن ایئر لائنز کے متعدد طیاروں کو 2002ئ، 2004ئ، 2007ئ، 2012ئ، 2013ء اور 2016ء میںحادثات پیش آچکے ہیں اور نیا سانحہ روان برس 2018ء میں پیش آیا ہے، جس سے تمام حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد1,000 کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے اور اس کمپنی کی فلائٹس سیفٹی کا ریکارڈ خراب محسوس کیا جارہا ہے۔