شاہراہ قراقرم پر کھائی میں گرنے والی گاڑی کا ٹائر پھٹا تھا

محمد زبیر خان
شاہراہ قراقرم پر حادثے کا شکار ہونے والی بدنصیب مسافر گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوا تھا۔ توازن برقرار نہ رکھ سکنے کے باعث کوسٹر گہری کھائی میں جا گری۔ کوسٹر کے کچھ حصے کھائی سے منسلک دریائے سندھ سے برآمد ہوئے۔ گاڑی میں 25 افراد سوار تھے، جن میں سے 17 افراد کی نعشیں نکال لی گئی ہیں، جبکہ ایک مسافر خاتون معجزانہ طور پر بچ گئیں، تاہم وہ شدید زخمی ہیں۔ چھ کی تلاش تاحال جاری ہے۔ چالاس سے ریسیکو 1122 کی گاڑی آنے پر امدادی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ رات گئے گلگت بلتستان کے علاقے غذر سے راولپنڈی جانے والی مسافر گاڑی گہری کھائی میں جا گری تھی۔ اطلاعات کے مطابق شاہراہ قراقرم پر کوہستان کے علاقے میں حادثے کا شکار ہونے والی کوسٹر میں 25 افراد سوار تھے۔ ’’امت‘‘ کو اپر کوہستان کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر عبدالغفور نے بتایا کہ مسافر گاڑی میں سوار 25 افراد میں سے سوموار کی شام تک سترہ افراد کی نعشیں نکال لی گئی ہیں۔ ایک شدید زخمی خاتون کو ریسکیو کیا گیا ہے، جبکہ باقی سات مسافروں کی تلاش جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رات کے اندھیرے میں تلاش کا کام جاری رکھنا ممکن نہیں، اس لئے باقی ماندہ افراد کی تلاش کا کام صبح کے وقت کیا جائے گا۔ پولیس افسر عبدالغفور نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق گاڑی کا ٹائر پھٹا تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور کھائی میں جا گری۔ کھائی کے قریب ہی دریائے سندھ بہتا ہے۔ گاڑی کے کچھ حصے دریائے سندھ سے بھی ملے ہیں۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات جب حادثے کی اطلاع ملی تو اس وقت پولیس پارٹی اور مقامی افراد موقع پر پہنچ گئے تھے۔ مگر رات ہوچکی تھی اور جس جگہ کوسٹر گری تھی، وہاں سے نیچے جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس موقع پر مقامی لوگوں کی مدد سے راستہ بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن اس میں کامیابی کم ہو رہی تھی۔ بعد ازاں چالاس سے ریسیکو 1122 کو کال کی گئی اور ریسیکو 1122 کی ٹیم حادثے کے چار گھنٹے بعد موقع پر پہنچی۔ امداددی کارکنوں نے نیچے جانے کا راستہ بنایا۔ اس موقع پر ایک مقامی شخص کو ریسیکو ٹیم نے رسا باندھ کر نیچے اتارا، جس نے بوری میں کچھ نعشیں باندھیں، جن کو رسے کی مدد سے اوپر لایا گیا۔ اجالا پھیلنے پر ریسیکو ٹیم نے مناسب راستہ بنایا، اور سترہ نعشیں اور ایک زخمی کو اسپتال پہنچایا گیا۔ جبکہ سات افراد کی تلاش جاری رکھی گئی، تاہم رات ہونے پر امدادی کارروائیاں روک دی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپر کوہستان پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق حادثہ انتہائی خطرناک مقام پر ہوا ہے۔ جس مقام پر گاڑی گری ہے، اس جگہ سے ملحق دریائے سندھ ہے، جس کی روانی ان دنوں کافی تیز ہے۔ چونکہ دریا میں بڑے بڑے پتھر بھی ہیں، اس لئے اس میں گرنے کے بعد بچاؤ کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ جبکہ تیز بہائو کی وجہ سے لاشیں جلد ملنے کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے۔ مقامی لوگوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوہستان جو شاہراہ قراقرم کا اہم علاقہ ہے، لیکن اس بین الاقوامی شاہراہ کے کنارے پر واقع ضلع میں امدادی کارروائیوں کے لئے مناسب وسائل موجود نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے علاقے چالاس سے مدد طلب کرنا پڑی۔ مقامی افراد کے مطابق اگر چالاس سے ریسیکو 1122 کی ٹیم ضروری آلات کے ہمراہ مدد کو نہ آتی تو پھر امدادی کارروائیوں میں مزید تاخیر ہو سکتی تھی۔
واضح رہے کہ حادثہ اپر کوہستان کے علاقے لوٹر میں قراقرم ہائی وے پر پیش آیا تھا۔ علاقے میں موبائل سروس کام نہیں کرتی۔ واقعے کے عینی شاہد شریف خان کا کہنا تھا کہ حادثہ شام کے وقت پیش آیا، جس کے کافی دیر بعد انہیں موبائل سگنلز موصول ہوئے، جس کے بعد انہوں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں چند ہی لوگ آباد ہیں، جنہوں نے حادثے کے فوراً بعد ہی لوگوں کو کوسٹر سے نکالنے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ تاہم سورج غروب ہونے اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ دیگر عینی شاہدین کے مطابق زخمی خاتون معجزانہ طور پر حادثے میں محفوظ رہیں۔ انہیں ایک گھر میں لے جایا گیا۔ تاہم خاتون کی زبان مختلف ہونے کی وجہ سے کسی کو ان کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔

Comments (0)
Add Comment