شرابی کی توبہ:
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے، جو شراب پی کر بے سدھ پڑا ہوا تھا، بے ہوشی کے عالم میں اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی، حضرت ابراہیم ابن ادہمؒ نے اس کی زبان کو دھویا اور فرمایا: کیسی زبان کو یہ آفت پہنچی، جو حق تعالیٰ کا ذکر کرتی تھی۔ اس شخص کو جب ہوش آیا تو لوگوں نے اسے حضرت ابراہیمؒ کے بارے میں بتایا، یہ سن کر وہ بڑا شرمسار ہوا اور اسی وقت توبہ کی اور پھر توبہ پر قائم رہا۔ حضرت ابراہیمؒ نے خواب میں دیکھا کہ ایک منادی ندا دے رہا ہے: ’’تو نے ہمارے واسطے اس کی زبان پاک کی، ہم نے تیری وجہ سے اس کا قلب پاک کردیا۔‘‘ (نزہۃ البساتین)
مبارک ہاتھ:
حضرت بشر حافیؒ بڑے متقی اور پرہیزگار تھے، حق تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کا مرتبہ بہت بلند تھا، آپ کے بارے میں ایک واقعہ جو حضرت فاطمہ بنت شیخ ابی علی رودباریؒ کی ہمشیرہ سے مروی ہے۔ فرماتی ہیں کہ بغداد میں دس جوان تھے اور ہر ایک جوان کے ساتھ ایک ایک لڑکا تھا، انہوں نے ایک لڑکے کو کسی کام کی غرض سے بھیجا، اس کو واپس آنے میں دیر ہوگئی، اس پر وہ لوگ آگ بگولا ہوئے، اسی اثناء میں لڑکا ہنستا ہوا آگیا، اس کے ہاتھ میں ایک خربوزہ تھا۔ وہ لوگ اس پر خفا ہوتے ہوئے بولے کہ اتنی تاخیر سے آیا ہے اور پھر ہنس بھی رہا ہے؟ لڑکے نے جواب دیا کہ میں ایک عجیب چیز لے کر آیا ہوں۔ انہوں نے پوچھا وہ کیا عجیب چیز ہے؟ لڑکے نے کہا: اس خربوزے پر حضرت بشر حافیؒ نے اپنا مبارک ہاتھ رکھا تھا، میں نے یہ خربوزہ بیس درہم میں خرید لیا ہے۔ یہ سنتے ہی ان لوگوں نے لڑکے کے ہاتھ سے خربوزہ لے کر اپنی آنکھوں سے لگایا اور اسے بوسہ دیا۔
ان جوانوں میں سے ایک کہنے لگا: کس چیز نے حضرت بشر حافیؒ کو اس مرتبہ پہنچایا؟ دوسروں نے کہا کہ تقویٰ نے۔ کہنے لگا: میں تم سب کو اپنا گواہ بناتا ہوں کہ میں حق تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں، اس کے ساتھ ہی سب نے توبہ کی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ تمام طرطوس گئے اور وہاں جاکر شہید ہوگئے۔ (روضۃ الریاحین)
ایک عاشق:
حضرت بشر بن حارثؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بغداد کے محلہ شرقیہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ اس کو ہزار کوڑے لگائے گئے۔ لیکن اس نے اف تک نہ کی، پھر اس کو قید خانے میں لے گئے، میں اس کے پیچھے گیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیوں ماراگیا؟ وہ کہنے لگا کہ مجھے اس لئے مارا کہ میں عاشق ہوں۔ میں نے کہا کہ تم چپ کیوں رہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرا محبوب میرے سامنے مجھے دیکھتا تھا۔ میں نے کہا پھر کیا ہی اچھا ہوتا جو تو محبوب حقیقی کی جانب دیکھتا۔ یہ سننا تھا کہ اس نے ایک چیخ ماری اور گر پڑا، اس لمحے اس کی روح اس کے جسم سے نکل گئی۔ (احیاء العلوم)
درست توکل:
حضرت بشر حافیؒ کے ایک دوست جناب حسین منازلیؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت بشر حافیؒ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، یہ چاشت کا وقت تھا کہ اتنی دیر میں ایک ادھیڑ عمر کے بزرگ آپ کے پاس تشریف لائے۔ حضرت بشرؒ ان کی تعظیم کے لئے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور میں نے اس سے پہلے ان کو کسی کی تعظیم کے لئے اٹھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ پھر آپ نے مجھے چند درہم دیئے اور فرمایا کہ اچھا سا کھانا اور خوشبو جو ہماری حیثیت کے لائق ہو، خرید کر کے آؤ۔ اس طرح کی بات اس سے پہلے حضرت بشر حافیؒ نے کبھی مجھ سے نہ کی تھی، چنانچہ میں کھانا لے آیا۔ آپ نے ان بزرگ کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔ حالانکہ اس سے پہلے میں نے آپ کو کسی کے ساتھ کھانا کھاتے نہ دیکھا تھا۔ جب ضرورت کے مطابق کھانا کھالیا تو بہت سا کھانا بچ بھی گیا۔ وہ بزرگ اس کھانے کو اپنے کپڑے میں باندھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی اور ان کی یہ حرکت ناگوار سی معلوم ہوئی۔
حضرت بشر حافیؒ نے مجھ سے فرمایا: معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں ان کی یہ حرکت ناگوار معلوم ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس وجہ سے کہ وہ بغیر اجازت بچا ہوا کھانا لے گئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بزرگ ہمارے بھائی فتح موصلیؒ ہیں، جو کہ آج ہی ہم سے ملنے کے لئے موصل سے تشریف لائے تھے۔ اس فعل سے ان کی غرض یہ تھی کہ وہ ہمیں تعلیم دیں کہ جب توکل درست ہوجاتا ہے تو اس کے ساتھ ذخیرہ کرنا کچھ نقصان نہیں پہنچاتا۔ (احیاء العلوم) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭