ضیاء الرحمٰن چترالی
قید میں بھی انہیں مکمل آزادی حاصل تھی، جس کا فائدہ اٹھا کر وہ ڈائری لکھتی رہیں، جو بعد میں ان کے کام آئی۔ امریکہ و برطانیہ کو جنگ کے جواز اور طالبان پر فوری حملہ کے لئے ان کی قید میں ریڈلے کی لاش چاہئے تھی۔ اسی لئے وہ اس قیدی کی زندگی کے درپے ہو گئے تھے۔ وہ مغربی عوام کو بتانا چاہتے تھے کہ طالبان وحشی، اجڈ، جاہل اور عورتوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔ انہوں نے ایک سازش کے تحت ریڈلے کو مغربی جاسوس ثابت کرنے کی کوشش کی، جو ناکام ہوئی۔
طالبان کو ریڈلے کی ذاتی زندگی سے متعلق مغرب سے خفیہ طور پر مسلسل ایسی دستاویزات موصول ہونے لگیں، جن سے ریڈلے کو جاسوس ثابت کرنا مقصود تھا۔ جس کے نتیجے میں ان کی دردناک موت یقینی تھی۔ لیکن طالبان، امریکی و برطانوی سازش بھانپ گئے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ریڈلے جاسوس نہیں، بلکہ واقعی سنڈے ایکسپریس کی صحافی ہیں، جن کا افغانستان آنا طالبان کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں۔ ریڈلے کے اخبار نے بھی ان کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اخبار کے سینئر لوگ اسلام آباد میں طالبان سفیر سے مسلسل مذاکرات کرتے رہے اور ریڈلے کو صحافی ثابت کرنے کیلئے متعلقہ دستاویزات مہیا کرتے رہے۔ ان کی کا وشیں رنگ لے آئیں۔ ریڈلے کی بوڑھی ماں ڈائس اور اکلوتی بیٹی ڈیزی کی دعائیں قبول ہو گئیں۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ کی مداخلت اور طالبان کی رحم دلی بھی کام کر گئی۔ ریڈلے کی سچائی جیت گئی۔ آخر طالبان قائل ہو گئے کہ وہ ایک صحافی ہیں۔ دس دن قید میں رہنے کے بعد ریڈلے کو آٹھ اکتوبر کو رہائی نصیب ہوئی۔
ریڈلے کو رخصت کرتے وقت طالبان نے قرآن کریم کا ایک نسخہ انہیں بطور تحفہ دیا۔ وہ لکھتی ہیں: ’’ہم جس چیک پوائنٹ پر سے بھی گزرے، سفارتی افسر وہاں ملا عمر کے دستخطوں سے جاری ہونے والا کاغذ دکھا تا رہا، جس میں کہا گیا تھا کہ ریڈلے کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا گیا ہے۔‘‘ افغان طالبان نے اپنی دشمن کی بیٹی سے بہت اچھا سلوک کیا تھا۔ دوران قید ایسا بھی دن آیا تھا کہ انہیں اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ ریڈلے نے طالبان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسلام کا مطالعہ کر نے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گی۔ ڈھائی سال تک وہ اسلام کو سمجھتی رہی، پھر ایک دن اپنے ضمیر کی آواز سنی اور اسلام قبول کیا۔ اب وہ مغرب میں اسلام کی باپردہ وکیل اور مظلوم مسلمانوں کی ایک موثر آواز ہیں۔ وہ برطانیہ میں جنگ مخالف تحریک کی روح رواں بھی ہیں۔ وہ آج عالمی ذرائع کے کینوس پر پہلے سے کہیں زیادہ چمک دمک کے ساتھ موجود ہیں۔
ریڈلے مریم کا کہنا ہے کہ ’’میرا قبول اسلام، کابل سے واپسی کے ڈھائی سال بعد کا واقعہ ہے، یہ ڈھائی سال اسلام کے مطالعے میں گزارے، جب میں نے خود کو اس عظیم مسلم برادری میں شامل ہونے کے لیے بالکل تیار پایا تو عمران خان کو اپنے فیصلے سے مطلع کیا، انہوں نے ایک بار پھر غور کرنے کے لیے کہا، میں نے کہا کہ ڈھائی سال سوچتی رہی ہوں، اب صرف عمل کرنا ہے، یہ میرا قطعی فیصلہ ہے۔ میں اس کے لیے خاص تقریب کے انعقاد یا پر جوش تقریر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی، بس عمران خان اور ہمارے تین دوست موجود تھے تو میں نے قبول اسلام کا باقاعدہ اعلان کیا۔ جہاں تک اثرات یا میری زندگی کے معمولات، خاندانی تعلقات اور حلقہ احباب کے رد عمل کا تعلق ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ میں نے شراب پینا بالکل ترک کر دی، کلبوں میں جانا، شطرنج کھیلنا اور مخلوط ماحول کو بھی چھوڑ دیا ہے، اس طرح جو احباب نے بچھڑنا تھا، بچھڑ چکے۔ اب میں ان تمام حرکتوں سے اجتناب کرتی ہوں، جنہیں گناہ کہا جاتا ہے۔
میں افغانی عورتوں کی طرح شٹل برقع نہیں پہنتی، لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق حجاب لیتی ہوں۔ اس میں بھی چہرے اور ہاتھوں کے سوا سارا جسم ڈھانپا ہوتا ہے۔ جو لوگ مجھے بطور یو آن ریڈلے، بے حد عزیز جانتے تھے، وہ مجھے بطور مریم دیکھ کر شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں اور کچھ کھچے کھچے رہتے ہیں۔ اس سے انہیں طالبان اور اسلام کے بارے میں ایک ناقابل فراموش پیغام تو مل گیا۔ مجھے عیسائی فنڈامنٹلسٹوں (بنیاد پرستوں) کی طرف سے قتل کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے ان کے مذہب سے غداری کی ہے، یہ ان کی تعبیر ہے اور میری تعبیر یہ ہے کہ میں نے اپنے مطالعے اور اپنے ضمیر کے مطابق ایک فیصلہ کیا ہے، جس سے مجھے بے پناہ طمانیت حال ملی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس سے پہلے میری زندگی کا کوئی نصب العین نہیں تھا، اب مجھے جینے کا ایک واضح مقصد نظر آگیا ہے اور زندگی بہت خوبصورت دکھائی دے رہی ہے۔ البتہ ایک پچھتاوا ہے کہ میں نے اسلام کو سمجھنے میں اتنی دیر کیوں کر دی، پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی ہوں کہ حق تعالیٰ نے مجھ پر نظر کرم کر ہی دی، اب باقی زندگی اس کے احکام کے مطابق گزاروں گی۔ میں اب غیر مسلموں میں غیر محسوس طریقے سے اسلام کی روشنی پھیلا رہی ہوں۔‘‘
٭٭٭٭٭