سیدنا ابو بکر صدیق ؓکا عزم

جنگ موتہ میں حضرت زیدؓ بن حارثہ، حضرت ابن رواحہؓ اور حضرت جعفر بن ابی طالبؓ جیسے بزرگ صحابہ شہید ہوئے تھے۔ رسول اقدسؐ نے ان کے انتقام کیلئے زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے حضرت اسامہؓ کو ایک لشکر کا سپہ سالار مقرر کر کے موتہ کی جانب روانہ فرمایا۔ ابھی یہ لشکر مدینہ کے قریب مقام جرف ہی میں تھا کہ آپؐ کے مرض کو شدت ہوئی اور وصال ہو گیا، اس لئے اس لشکر کی روانگی ملتوی ہوگئی۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ خلیفہ ہوئے تو پورے عرب میں ارتداد کا فتنہ برپا ہوگیا، بہت سے قبائل مرتد ہوگئے۔ اندرونی فتنوں نے خلافت اسلامیہ کو گھیر لیا۔ ان حالات کی روشنی میں بہت سے صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو مشورہ دیا کہ ایسے انتشار کی حالت میں، جبکہ سب طرف سے فتنہ اور فساد کی خبریں آرہی ہیں اور مدینہ پر مرتدوں کا حملہ ہونے کا سخت اندیشہ ہے، وہ اس لشکر کو رومی سلطنت کی طرف روانہ نہ کریں۔ ایسے مشورہ دینے والوں میں حضرت عمر فاروقؓ بھی شامل تھے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں کے اس مشورے کے جواب میں فرمایا: ’’کیا تم چاہتے ہو کہ جس کام کا حکم رسول اقدسؐ نے دیا ہے، اس کو فراموش کر دیا جائے۔ میرا ایمان ہرگز گوارہ نہیں کر سکتا کہ میں حکم رسولؐ کو ایک لمحہ بھی ٹالنے کی کوشش کروں، اگر مجھے اس بات کا یقین ہو جائے کہ مدینہ میں تنہا ہونے کی وجہ سے مجھے بھیڑیئے پھاڑ ڈالیں گے، تب بھی خدا کی قسم! میں اس لشکر کی روانگی کو ملتوی نہ کروں گا۔ جس کو رسول اقدسؐ نے روانہ فرمایا ہو‘‘۔ (اکبر شاہ خاں، جلد اول ص 281)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment