صاحب معارف القرآن لکھتے ہیں کہ العالمین، عالم کی جمع ہے۔ جس میں دنیا کی تمام اجناس، آسمان، چاند، سورج اور تمام ستارے اور ہوا و فضا، برق و باراں، فرشتے، جنات، زمین و آسمان کی تمام مخلوقات، حیوانات، انسان، نباتات، جمادات سب ہی داخل ہیں۔
اس لیے رب العالمین کے معنی یہ ہوئے کہ حق تعالیٰ تمام اجناس کائنات کی تربیت کرنے والے ہیں اور یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ جیسا یہ عالم (جہان) ہے، جس میں ہم بستے ہیں اور اس کے نظام شمسی و قمری اور برق (بجلی) و باراں اور زمین کی لاکھوں مخلوقات کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں، یہ سارا ایک عالم ہو اور اسی جیسے اور ہزاروں، لاکھوں دوسرے عالم ہوں، جو اس عالم سے باہر کی خلا میں موجود ہوں۔ امام فخر الدین رازیؒ (متوفی 606ھ) نے اپنی تفسیر کبیر (اس تفسیر کا اصل نام ’’مفاتیح الغیب ہے‘‘) میں فرمایا ہے کہ اس عالم سے باہر ایک لامتناہی (یعنی جس کی کوئی حد نہ ہو) خلا کا وجود دلائل عقلیہ سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ حق تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے۔ اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ اس نے اس لامتناہی خلا میں ہمارے پیش نظر عالم کی طرح کے اور بھی ہزاروں لاکھوں عالم و جہان بنا رکھے ہوں۔
سرور کائناتؐ کے صحابیؓ حضرت ابو سعید خدریؓ سے منقول ہے کہ عالم چالیس ہزار ہیں۔ یہ دنیا مشرق سے مغرب تک ایک عالم ہے۔ باقی اس کے سوا ہیں۔ اسی طرح حضرت مقاتلؒ امام تفسیر سے منقول ہے کہ عالم اسی ہزار ہیں (تفسیر قرطبی، اس کا پورا نام ’’الجامع الاحکام القرآن ہے۔ یہ اندلس کے مشہور عالم علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد ابی بکر بن فرح القرطبیؒ متوفی 671ء کی تصنیف ہے) اس پر جو شبہ کیا جاتا تھا کہ خلا میں انسانی مزاج کے مناسب ہوا نہیں ہوتی، اس لیے انسان یا کوئی حیوان وہاں زندہ نہیں رہ سکتا۔ حضرت امام فخرالدین رازیؒ نے اس کا یہ خوب صورت اور معقول جواب دیا ہے کہ یہ کیا ضروری ہے کہ اس عالم سے خارج خلا میں دوسرے عالم کے باشندے ہوں، ان کا مزاج بھی ہمارے جہاں کے باشندوں کی طرح ہو، جو خلا میں زندہ نہ رہ سکیں۔ یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ ان عالموں کے باشندوں کے مزاج و طبائع (جمع طبیعت) ان کی غذا و ہوا، یہاں کے باشندوں کے مزاج سے بالکل مختلف ہوں۔ غور فرمائیں کہ یہ مضمون تو اب سے آٹھ صدیاں یعنی آٹھ سو سال پہلے کے اسلامی فلاسفر اور ایک مفسر قرآن امام فخر الدین رازیؒ کا لکھا ہوا ہے۔ جبکہ فضا و خلا کی سیر اور اس کی پیمائش کے آلات و ذرائع ابھی ایجاد نہ ہوئے تھے۔ آج دور حاضر میں خلا کے مسافروں نے جو کچھ آکر بتایا ہے، وہ بھی اس سے زیادہ نہیں کہ اس عالم سے باہر کی خلا کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس غیر متناہی خلا میں کیا کچھ موجود ہے۔
حضور اقدسؐ کے واقعہ معراج کے متعلق علامہ محمد اقبالؒ نے خوب کہا ہے:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
اس دنیا سے قریب ترین سیاروں، چاند اور مریخ کی آبادی کے بارے میں جو قیاسات آج کے جدید ترین ماہرین سائنس پیش کررہے ہیں، وہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر ان سیارات کے اوپر کچھ لوگ یا مخلوق آباد ہیں تو یہ ضروری نہیں کہ وہ ان ہی خصوصیات اور اسی مزاج و طبیعت کے ہوں، جو اس عالم کے انسان اور حیوانات و نباتات کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ ان کے مزاج و طبیعت ان کی غذا و ضروریات یہاں کے لوگوں اور مخلوق سے بالکل مختلف ہوں، اس لیے ایک دوسرے پر قیاس کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہی بات صاحب تفسیر کبیر صدیاں پہلے بتا چکے ہیں۔ درحقیقت حضرت امام فخر الدین رازیؒ کی تائید اور اس سلسلے کی جدید معلومات کے لیے اوپر لکھا گیا مضمون کافی ہے، جو خلائی مسافر نے حال ہی میں خلا کے وسیع و عریض سفر سے واپس آکر شائع کرایا ہے۔ (بحوالہ تفسیر معارف القرآن جلد 1 ص 81)
٭٭٭٭٭