اعظم سواتی چھ کنال سرکاری اراضی پر قابض ہیں

نمائندہ امت
تحریک انصاف کے کارکنوں کی ملامت کا شکار اعظم سواتی پچھلے ایک سال سے غریب خاندان کو تنگ کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر ان لوگوں کو یہاں سے ہٹاکر اپنے فارم ہاؤس کی حدود سے آگے نالے کے کنارے آٹھ دس کنال اراضی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت بھی اپنے فارم کی حدود سے باہر ان کا پانچ چھ کنال سرکاری اراضی پر قبضہ ہے، جہاں ان کے فارم کے ملازمین کے گھر بنے ہوئے اور مویشی وغیرہ بندھے ہیں۔ نمائندہ ’’امت‘‘ نے منگل کو موقع پر پہنچ کر اصل صورت حال معلوم کی تو پتا چلا کہ تقریباً ایک سال پہلے اعظم سواتی نے یہ فارم ہاؤس خریدا تھا۔ مقامی افراد اور پڑوسیوں کے مطابق پہلے والے مالک، شاہ صاحب اچھے آدمی تھے۔ ان کے فارم کے پچھلی جانب کوئی دروازہ یا گیٹ نہیں تھا۔ ایک اونچا برج ان کی باؤنڈری دیوار کے اندر بنا ہوا تھا، جس پر ایک گارڈ دن کے مختلف اوقات میں آکر کچھ دیر کیلئے بیٹھ جاتا اور پیچھے رہنے والے افراد سے بات چیت بھی کرتا تھا۔ عیدین کے موقع پر فارم کے مالک کی جانب سے چھ سات خاندانوں پر مشتمل جھونپڑی نما بستی کے مکینوں کو کھانا بھی بھجوایا جاتا اور ان کا دکھ سکھ کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ لیکن ایک سال پہلے اعظم سواتی کے اس فارم ہاؤس کا مالک بننے کے بعد صورت حال بدل گئی۔ انہوں نے سب سے پہلے دس فٹ اونچی دیوار بنوائی اور اس پر ڈھائی فٹ کی خاردار تار لگوائی۔ اب اعظم سواتی کے بیٹے اور غریب خاندان کیخلاف کیس کے مدعی عثمان کے مطابق اسی ساڑھے بارہ فٹ اونچی دیوار کو پھلانک کر نیاز علی کی گائے نے فارم کے اندر ان کے پودوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ فارم ہاؤس کے پچھلی جانب نالہ ہے اور اس نالے کا بہاؤ عام دنوں میں فارم ہاؤس کی حدود سے ڈیڑھ دو سو گز دور ہوتا ہے۔ اس بیرونی جگہ پر قبضہ کرنے کیلئے اعظم سواتی نے پچھلے سال یہاں ’’سرو‘‘ کے درخت لگوائے۔ ان درختوں سے متصل علاقے میں نیاز علی کا خاندان اور دیگر خاندان آباد ہیں۔ سرو کے درخت لگوانے کا مقصد اس سرکاری زمین پر قبضہ کرنا تھا۔ ان کے اردگرد حفاظت کیلئے خاردار تار لگائی گئی، جو اس سال نالے میں کئی بار آنے والے پانی کے تیز بہاؤ سے جگہ جگہ سے ٹوٹ گئی۔ اب اسی جگہ سے نیاز علی کی گائے اندر چلی گئی، جسے فارم ہاؤس کے اندر داخل ہونے کا جواز پیدا کر کے اس غریب خاندان کی زندگی اجیرن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مقامی افراد اور نیاز علی کے بیٹے ضیاء الدین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نیاز علی آبپارہ مارکیٹ میں تیرہ چودہ ہزار روپے ماہانہ کا سیل مین ہے۔ اس کے اعظم سواتی سے تنازعہ کی ابتدا نو دس ماہ قبل ہوئی، جب نیاز علی اپنی معذور بہن کے خاندان کو یہاں لایا اور اپنے بہنوئی شمشاد کو آبپارہ میں کسی دکان پر ملازمت دلائی۔ چند ہفتوں بعد نیاز علی نے اس کیلئے اپنے گھر جیسا ایک کچا کمرہ تعمیر کیا۔ تاہم آٹھ دس کنال سرکاری زمین پر قابض اعظم سواتی اور اس کے بیٹے عثمان کو یہ اپنی ریاست میں ناجائز تعمیرات اور تجاوزات لگیں اور انہوں نے نہ صرف وہ کمرہ گرا دیا، بلکہ نیاز علی اور شمشاد کو زد و کوب بھی کیا گیا۔ کمسن ضیاء الدین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’میرے والد اور ماموں نے اعظم سواتی اور اس کے ملازمین کے خلاف تھانہ شہزاد ٹاؤن میں چھ درخواستیں دیں، لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ الٹا پولیس نے ہمیں پریشان کیا۔ کبھی دن کو پولیس آجاتی جب والد اور ماموں گھر پر نہ ہوتے۔ کبھی رات دس گیارہ بجے آجاتے۔ ان حالات سے تنگ آکر ماموں شمشاد اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر واپس باجوڑ چلا گیا۔ اب اعظم سواتی ہمیں بھی اسی طرح یہاں سے بھگانا چاہتا ہے۔ آپ سامنے دیکھ رہے ہیں کہ دس گیارہ فٹ اونچی دیوار سے گائے اندر کیسے جاسکتی ہے۔ جبکہ ہم نالے میں رہ رہے ہیں اور ان کا فارم بھی یہاں سے بیس فٹ اونچا ہے۔ کوئی جانور یہاں سے فارم کی دیوار تک بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ اس دن کے واقعہ کے بارے میں ضیاء الدین نے بتایا ’’جب ہماری گائے کو سرو کے پودوں میں جانے کی وجہ سے ان کے ملازمین نے پکڑ کر باندھ لیا تو کچھ دیر بعد میں نے ان سے گائے واپس دینے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ اب اعظم سواتی کا بیٹا عثمان ہی گائے دے سکتا ہے، ہمیں یہی حکم ہے۔ میں نے فارم ہاؤس کے باہر جہاں ان کے ملازمین کی گائے اور جانور بندھے تھے، وہاں سے اپنی گائے کھول لی۔ مجھے کسی نے منع نہیں کیا اور میں گائے کو گھر لے آیا۔ کچھ دیر بعد عثمان سواتی کو علم ہونے پر اس کے حکم پر چھ سات افراد ہمارے گھر آگئے۔ پہلے ان میں سے ایک نے چھ سات فائر کئے اور ہمارے گھر کی چھت پر لگے سولر پینل کو توڑ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھے اور میرے بھائیوں کو مارنے لگے۔ میری والدہ اور بہن نے آگے بڑھ کر ہمیں ان سے چھڑانے کی کوشش کی تو ان کو بھی ڈنڈے مارے۔ یہاں ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں ہے، نہ کسی نے ساتھ دیا۔ یہ لوگ گائے لے کر چلے گئے۔ یہ جمعہ کے دن چار بجے کا واقعہ ہے۔ اگلے روز انہوں نے ہمارے اوپر مقدمہ درج کرادیا اور اتوار کو پولیس نے ہمیں گرفتار کرلیا۔ مجھے تھانہ شہزاد ٹاؤن لے گئے۔ گھر میں صرف میری دو بہنیں جن کی عمریں آٹھ اور چھ سال ہیں، وہ رہ گئیں۔ بعد میں مجھے گھر بھیج دیا۔ ہمارے گھر میں پکانے والا کوئی نہیں ہے، اس لئے اپنے اور بہنوں کیلئے گزشتہ دو تین دن سے کھانا ہوٹل سے ادھار لارہا ہوں‘‘۔ ضیاء الدین نے بتایا کہ ہماری گائے دو وقت میں چودہ پندرہ کلو دودھ دیتی ہے۔ یہ دودھ فروخت کر کے ہم گھر چلاتے ہیں۔ گائے تین دن ان کے پاس رہی اور میڈیا میں بات آنے پر گائے واپس کی۔
مظلوم خاندان کے سربراہ نیاز علی کی ہمدردی میں باجوڑ سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد متحرک ہوگئے، جن میں سراج الدین، محمد یونس، پڑوسی شیر خان، عبدالرحمان، وہاب خان، فرہاد علی وغیرہ شامل ہیں۔ نیاز علی کے گھر میں ان افراد نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے بھائی کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہوئی ہے۔ خواتین اور بچوں کو جیل بھجوانے سے بڑا جرم کوئی نہیں ہوسکتا جو اعظم سواتی نے کیا۔ عمران خان کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ وہ اپنے اس ظالم وزیر کو پارٹی سے نکالیں‘‘۔ وہاب خان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ رات ہم سے اعظم سواتی کے لوگوں نے سرسری ملاقات کی ہے۔ لیکن یہ تاثر دینا کہ ہماری صلح ہوگئی، بالکل غلط ہے۔ اب ہمارے رکن قومی اسمبلی گل ظفر خان اور دیگر بڑے بھی متحرک ہیں۔ انہوں نے بھی اس کا سخت نوٹس لیا ہے۔ باجوڑ کے پندرہ بیس ہزار افراد جو راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہتے ہیں، وہ بھی سخت ناراض ہیں۔ اب ہمارے بڑے ہی نیاز علی سے ان کا موقف سننے کے بعد فیصلہ کریں گے‘‘۔
ذرائع کے مطابق اعظم سواتی کا بھتیجا جس کا نام ظفر دین بتایا جارہا ہے اور ایک مقامی شخص ملک عامر جو کسی کاروبار میں اعظم سواتی کا پارٹنر ہے، یہ دونوں اس کیس میں صلح صفائی کرانے کیلئے متحرک ہیں اور انہی لوگوں نے نیاز علی کے ہمدردوں کو پریس کلب سے پارلیمنٹ لاجز لے جاکر صلح صفائی کرنے کی کوشش کی۔ انہیں کہا گیا ہے کہ پہلے گرفتار خواتین و حضرات کو رہا کرائیں، اس کے بعد بات آگے بڑھے گی۔
ذرائع کے مطابق اعظم سواتی اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکنان سوشل میڈیا پر اعظم سواتی کو طرح طرح کے القاب سے نواز رہے ہیں اور انہیں پارٹی کیلئے ناسور قرار دے ہیں۔ انہوں نے پارٹی چیئرمین وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ اعظم سواتی کو پارٹی سے فوری طور پر نکالا جائے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے غریب خاندان کے ساتھ ظلم و زیادتی پر اعظم سواتی کے خلاف محاذ گرم کردیا ہے اور وہ اس سلسلے میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ شہریار آفریدی کو بھی مجرم قرار دے کر ان سے بھی وزارت واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ادھر نیاز علی، اس کے بیٹوں صلاح الدین، احسان اللہ اور بیٹی و بیوی کی کل ضمانت پر رہائی ہوگئی۔ اب وہ اپنے بڑوں اور باجوڑ ایجنسی کے اسلام آباد میں مقیم اکابرین کی مشاورت سے اعظم سواتی کے ساتھ صلح کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ باجوڑ سے منتخب رکن قومی اسمبلی گل ظفر خان کے علاوہ دیگر اکابرین بھی اعظم سواتی کے رویے اور مظلوم خاندان خصوصاً خواتین اور بچوں کی گرفتاری پر دل گرفتہ ہیں۔ ان سے ملاقات کرنے والے افراد کے مطابق اگر نیاز علی خود ان لوگوں کو معاف نہیں کرتا تو وہ اسے کسی صورت معاف نہیں کریں گے اور اس ظلم و زیادتی کے خلاف بھرپور قانونی لڑائی لڑیں گے اور پارٹی کے اندر بھی اعظم سواتی کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment