احمد خلیل جازم
گجرات کے قریبی علاقے بھاگو وال کلاں کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ ریحان واقعہ ہے، جہاں پر روایت کے مطابق حضرت صفدانؑ کی نوگز لمبی قبر ہے۔ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ آپؑ اللہ کے نبی ہیں۔ حضرت صفدانؑ کو موضع گجگران میں مدفون حضرت موسیٰ حجازیؑ کا بھائی بتایا جاتا ہے اور حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوبؑ کی اولاد میں سے کہا جاتا ہے۔ ان کے مزار کی نشان دہی کشف القبور کے ذریعے حضرت شمس الدین آف گلیانہ شریف نے قریباً ایک صدی قبل کی تھی، جس کی بعد حضرت خواجہ گوہرالدین آف جینڈر شریف نے بھی کشف القبور کے تحت تصدیق کی اور ان کا مزار تعمیر کرایا۔ خواجہ گوہر نے آپ کا شجرہ یوں بیان کیا ہے: ’’حضرت صفدان بن مراری بن لادی بن حضرت یعقوبؑ بن حضرت اسحاقؑ بن حضرت ابراہیمؑ‘‘۔ حافظ شمس الدین اپنی کتاب انوارالشمس کے صفحہ335 پر آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ریحان کے قریب ایک برساتی نالے کے قریب حضرت صفدان کی قبر موجود ہے‘‘۔ چونکہ مزار ایک بلند ٹیلے پر واقع ہے، اس لیے یہاں اکثر لوگوں کو پرانی اور تباہ حال بستی کے آثار ملتے ہیں۔ زمان کھوکھر ایڈووکیٹ اپنی کتاب ’’گجرات تاریخ کے آئینے میں‘‘ لکھتے ہیں ’’اس ٹیلے سے مٹی کے پرانے برتنوں کے ٹکڑے، آٹا پیسنے والی چکیوں کے پرانے پاٹ، بچوں کے مٹی سے بنے ہوئے کھلونوں کے ٹکڑے، لوہے کی قدیم اشیا سمیت موتی اور سیپ ملتے ہیں، دور دور تک مٹی کے برتنوں کے ٹکڑوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے‘‘۔ اگرچہ اس وقت ایسے ٹکڑے دیکھنے کو نہیں ملے، کیونکہ اب اس ٹیلے کی شکل ہی تبدیل ہوگئی ہے۔ اب ٹیلہ صاف ستھرے مزار اور خوبصورت احاطے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ حضرت صفدانؑ کے مزار کے حوالے سے ایسی کرامات بھی سنائی دیتی ہیں، جسے عقل تسلیم نہیں کرتی، لیکن کہنے والے اور دیکھنے والے ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ آج بھی صاحبِ مزار کی قبر پر روزانہ صبح سویرے، کیا بچہ، کیا بوڑھا، عورتیں ہو یا مرد ہر کوئی بلاناغہ حاضری دے کر دیگرکام کاج شروع کرتے ہیں۔ قدیم دور میں حضرت صفدانؑ کا مزار ایک اونچے ٹیلے پر واقع تھا۔ یہ ٹیلہ اب قریباً گائوں کے برابر آچکا ہے اور اس کے سامنے ایک خوبصورت مسجد تعمیرکر دی گئی ہے۔ جبکہ اس مزار کے بیرونی دروازے پر کھڑ ے ہوں تو حسب سابق دائیں جانب برگد کا ایک قدیم اور خاصا گھنا درخت موجود ہے ، جس کا تنا اتنا موٹا ہے کہ قریب جاکر دیکھنے سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اس تنے کے اوپر تین مزید موٹے تنے الگ الگ سمت نکل رہے ہیں اور ایک تنے کی موٹی شاخ زمین سے اتنا قریب ہے کہ ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا جا سکتا ہے۔
امت ٹیم جب بھاگو وال کلاں پہنچی تو ایک بار پھر مقامی محقق شیخ ضیا اور آصف مرزا نے موضع ریحان تک ہماری رہنمائی کی۔ بھاگو وال کلاں سے کچھ کوس واپس گجرات کی سمت دائیں جانب ایک چھوٹی سی نیم پختہ سڑک موضع ریحان کی سمت جاتی دکھائی دیتی ہے۔ آگے چلے تو سڑک کی حالت زار انتہائی خستہ اور ٹوٹی پھوٹی ہوئی ملی۔ بہرحال کچھ کلومیٹر چلنے کے بعد عین قصبے کے درمیان سے ایک کھلی گلی میں داخل ہوئے، جو قصبے کی بیرونی سمت سے گھوم کر کچے راستے تک لے آئی۔ یہ کچا راستہ ہی مزار کی جانب لے کر جانے والا تھا۔ اس راستے پر چلتے ہوئے دائیں جانب پورا قصبہ ریحان موجود تھا۔ جبکہ بائیں طرف خالی زمین، اور اونچے ٹیلے تھے، اور اسی سمت دور سے قبرستان دکھائی دیا، جس کے شروع میں ہی جنازہ گاہ دکھائی دیا۔ اس کے بعد خوبصورت مسجد اور پھر حضرت صفدانؑ کے مزار کا خوبصورت بیرونی دروازہ دکھائی دیا۔ پورے مزار پر سفید سنگ مرمر پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، جو اس روشن اور نسبتاً نیم گرم دن میں مزار کی للک لپک میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ گائوں کے چاروں طرف کسی دور میں مٹی کے بڑے بڑے ٹیلے پائے جاتے تھے۔ اس سے پہلے کہ یہاں پر موجود مزار کے متولی سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا جائے، کتاب ’گجرات تاریخ کے آئینے‘ میں لکھی ہوئی مزار کے حوالے سے یہ تحریر خاصے کی چیز ہے۔ لکھا ہے کہ ’’موضع ریحان کے قریب جو بڑے بڑے مٹی کے ٹیلے ہیں، وہ کافی بلند اور بڑے رقبے پر پائے جاتے ہیں۔ ان ٹیلوں پرکھڑے ہوکر دور دور تک نظارہ کیا جاسکتا ہے اور نزدیکی حرکات و سکنات بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ تہذیب و تمدن سے ناآشنا لوگ دشمن کو شکست دینے کے بعد بستیاں صفحہ ہستی سے مٹا دیا کرتے تھے۔ غالباً حفاظت کے لیے یہ بڑے ٹیلے بنائے گئے۔ یہاں فوجی جوان جب مشقوں کے لیے مورچے کھودتے تو زمین سے پرانی اشیا ملتیں۔ کاسب وزیر (اس ٹیلے کا نام جس پر قبر واقع ہے) کے ٹبے کے بارے میں ایک بات مشہور ہے، جو حاجی غلام محی الدین فاروقی کے بزرگ میاں فضل عظیم فاروقی، جو بڑے درویش ہو گزرے ہیں اور جن کا مزار صابو وال روڈ پر ہے، نے بیان کی ہے کہ ان کے ایک ملنے والے نے کاسب وزیر ٹبہ مزار پر حاضری دی۔ گھر کی جانب روانہ ہونے لگے تو زوردار بارش شروع ہوگئی۔ اس بارش میں انہیں مٹی کے چمکتے ہوئے ٹکڑے دکھائی دئیے، جو اس نے اکٹھے کرکے کپڑے میں باندھ لیے۔ گھر آکر جب ان ٹکڑوں کو گرم پانی سے صاف کیا تو وہ سونے کے ٹکڑے تھے۔ کاسب وزیر کے ٹبے کے بارے یہ بات بھی شہرت رکھتی ہے۔ فوجی مشقوں کے دوران اس مقام پر مورچے کھودے جانے لگتے تو گینتی کام کرنا چھوڑ دیتی۔ جب بار بار کوشش کی گئی تو کھودنے واالا جوان بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ جب دوسرے جوان نے کوشش کی تو وہ بھی بے ہوش ہو گیا۔ چنانچہ اس مقام پر جھنڈا لگا دیا گیا۔ اب ہر برس یہاں جھنڈا نصب کیا جاتا ہے۔ اس نیک ہستی کی بدولت موضع ریحان میں اخوت و محبت کے رشتے پیدا ہوگئے۔ پرانی رنجشیں اور عداوتیں ختم ہوگئیں‘‘۔
موضع ریحان مزار پر پہنچے تو اس وقت مزار کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ خوبصورت بیرونی دروازہ بھی سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت مزار پر کوئی موجود نہ تھا۔ دوپہر کے وقت درخت کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کمزور سی عورت بیٹھی تھی، جس نے مزار کی جانب جاتے ہوئے ہم سے پوچھا کہ آپ لوگ چائے پئیں گے۔ ہمارے شکر گزارانہ انکار پر وہ خاموش ہوگئی۔ جب ہم دروازے کے پاس پہنچے تو مزار کی تصاویر اتارنا شروع کردیں۔ ہم نے سوچا کہ اس کے متولی کے بارے میں کسی سے معلومات حاصل کریں، لیکن کوئی شخص موجود ہی نہیں تھا۔ درخت کی جانب نگاہ دوڑائی کہ اس خاتون سے پوچھا جائے جو درخت تلے بیٹھی ہے، تو حیرت سے دنگ رہ گئے کہ وہ خاتون موجود نہ تھی۔ عجیب بات تھی کہ ابھی کچھ دیر قبل وہ درخت کے ساتھ چبوترے پر بیٹھی تھی اور اس کی پشت پر ایک سلور کی دیگچی اور دو تین کپ بھی دھرے تھے۔ ہمارے ساتھ آنے والے اس بات سے بے خبر تھے کہ وہ عورت غائب ہوچکی ہے۔ یہ بات راقم کے علاوہ کسی نے محسوس نہ کی اور نہ ہی اس کا راقم نے کسی سے ذکر کیا۔ البتہ درخت کے ساتھ دو اطراف کھلا علاقہ تھا۔ بائیں جانب دور خاصے فاصلے پر ایک دیوار تھی، جس کے ساتھ ایک راستہ تھا، جبکہ مزار کے سامنے کچھ فاصلے پر گائوں والوں کا قبرستان تھا جو مزار کے قبرستان سے الگ تھا۔ قبرستان کے بعد کھلا میدان تھا جو ریحان گائوں سے جا ملتا تھا۔ دائیں طرف مسجد اور جنازہ گاہ تھی۔ مسجد کا دروازہ بند تھا، جبکہ جنازہ گاہ کا دروازہ کھلا ہوا تھا، لیکن ابھی یہ زیر تعمیر تھا۔ یعنی صرف چار دیواری تعمیر کی گئی تھی۔ عورت گئی تو کہاں گئی۔ یہ گتھی واپسی تک نہ سلجھ سکی اور نہ ہی اس کا کسی سے ذکر کیا گیا۔ البتہ ساتھ آنے والوں نے جب مزار پر کسی کے نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کیا تو پھر عورت کی جانب متوجہ ہوئے لیکن وہاں اسے نہ پایا۔ لیکن وہاں خاتون کو نہ پاکر کسی کو حیرت نہ ہوئی اور نہ ہی کسی نے پوچھا کہ وہ کہاں گئی۔ چنانچہ ہم دوبارہ مزار کے دروزاے سے اندر داخل ہوگئے۔ مزار کے اندر ایک پُراسرار سی خاموشی نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ قبر دیگر لمبی قبور کی نسبت لمبائی کے مقابلے میں تو برابر تھی، لیکن اوپر سے دیگر قبور سے چوڑائی میں زیادہ ہے، اور اس کے اردگرد بھی چبوترہ بنادیا گیا ہے، تاکہ بے ادبی نہ ہو۔ صرف قبر تک ہاتھ پہنچ سکتا ہے۔ قبر پر سبز رنگ کی چادر جس پر گولڈن رنگ کی گہری کشیدہ کاری کی گئی ہے، بچھائی گئی ہے۔ اس قبر کے سرہانے خلاف توقع تعویذ یا کسی قسم کی کوئی تختی نصب نہیں کی گئی۔ مزار کا اندرونی احاطہ بھی سفید سنگ سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا ہے، اور اس کی دیواروں میں پانچ پانچ بڑی کھڑکیاں دونوں جانب اس طرح رکھی گئی ہیں کہ ان سے آنکھوںکو خیرہ کردینے والی سورج کی روشنی چھن چھن کر اندر آتی ہے۔ مزار کے سرہانے جو دیوار ہے اس پر سفید ٹائلیں لگی ہیں اور ان پر سیاہ رنگ سے روضہ مقدس حضرت صفدان علیہ السلام تحریر ہے۔ اس تحریر کے ساتھ ہی دائیں جانب حضرت ابراہیمؑ سے لے کر حضرت صفدانؑ تک کا شجرہ نام بہ نام تحریر ہے۔ نو گز لمبی قبر کے اوپر جو گنبد بنایا گیا ہے، اس کے چاروں جانب روشن دان اس طرز پر رکھے گئے ہیں کہ دن میں ہر روشن دان سے سورج کی روشنی یوں اندر آتی ہے، جیسے ہزاروں واٹ سفید دودھیا بلب کی روشنی امڈ رہی ہو۔ یہ روشنی اس قدر زیادہ ہے کہ پوری قبر منور ہوجاتی ہے اور اس روشنی میں اندر چادر پر چلتی ایک چیونٹی تک دکھائی دے جاتی ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭