یورپی یونین سے تجارتی معاہدے کی تجدید کا راستہ ہموار ہوگیا

امت رپورٹ
آسیہ ملعونہ کی رہائی کے بعد یورپی یونین سے پاکستان کے تجارتی معاہدے کی تجدید کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے بتایا کہ پچھلے سات آٹھ ماہ سے ملعونہ آسیہ نورین کو رہا کرنے کے حوالے سے پاکستان پر بین الاقوامی دبائو میں حد درجہ اضافہ ہو گیا تھا۔ بالخصوص یورپی یونین کی جانب سے واضح دھمکی دی گئی تھی کہ اگر آسیہ ملعونہ کو رہا نہیں کیا گیا تو یورپی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی سے متعلق رعایتی تجارتی معاہدے کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس تجارتی معاہدے کے حوالے سے 2013ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ معاملات طے پائے تھے۔ بعد ازاں اس معاہدے کے تحت پاکستانی مصنوعات کو کسی خصوصی ٹیرف، ٹیکسوں یا ڈیوٹی کے بغیر یورپی مارکیٹ تک رسائی دی گئی تھی۔ ذرائع کے بقول اس سلسلے میں یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے مذہب و عقائد جان فائجل کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی حکام کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ یورپی منڈی تک پاکستانی برآمدات کی رسائی سے متعلق رعایتی تجارتی معاہدے کی تجدید کا انحصار آسیہ کی رہائی پر ہے۔ اور اب یہ حکومت پاکستان کو طے کرنا ہے کہ آسیہ کی رہائی سے جڑے اس معاہدے کو وہ جاری رکھنا چاہتی ہے یا نہیں۔ ذرائع کے مطابق رواں برس کے اوائل میں یورپی یونین کی جانب سے آنے والی اس دھمکی کے موقع پر عام انتخابات قریب تھے لہٰذا نواز حکومت نے اس معاملے کو جیسے تیسے لٹکا کر اپنے اقتدار کی مدت پوری کر لی۔ جیسے ہی نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو یورپی یونین کا دبائو پھر سے بڑھ گیا۔ آسیہ ملعونہ کی رہائی کے فیصلے کے مخالفین 8 اکتوبر 2018ء کو سپریم کورٹ کی طرف سے اس کیس کی تقریباً دو برس سے زیر التواء اپیل سننے کے اچانک فیصلے کو اسی بیرونی دبائو سے جوڑ رہے ہیں۔ یورپی منڈی تک بغیر ڈیوٹی پاکستانی مصنوعات کی رسائی کا تجارتی معاہدہ ختم ہونا پہلے سے کمزور پاکستانی معیشت کے لئے شدید دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ اور اس صورت میں پاکستان یورپی مارکیٹ میں بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ تاہم آسیہ کی رہائی کا مطالبہ پورا ہونے کے بعد یورپی یونین اب یقیناً اس معاہدے کو جاری رکھے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ آسیہ ملعونہ کی رہائی کے لئے صرف یورپی یونین ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی مرکز ویٹی کن سٹی اور ورلڈکونسل آف چرچز کا بھی شدید دبائو تھا۔ پوپ فرانسس نے اس سلسلے میں باقاعدہ پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا۔ جبکہ ورلڈ کونسل آف چرچز کی پروگرام ایگزیکٹیو ڈاکٹر کلیر اموس اس سلسلے میں سب سے زیادہ متحرک تھیں۔ ذرائع کے بقول جن دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا تھا ان میں اسپین، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا اور اٹلی سرفہرست ہیں۔ آسیہ ملعونہ کے وکیل سیف الملوک کے قریبی ذرائع کے مطابق اسپین، فرانس اور اٹلی نے رہائی کی صورت میں پہلے سے آسیہ ملعونہ کو شہریت دینے کی یقین دہانی کرا رکھی تھی۔ بالخصوص فرانس کی قونصل آف پیرس نے ملعونہ کو اعزازی شہریت دینے کے لئے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی تھی۔ ذرائع کے مطابق امکان ہے کہ رہائی کے بعد آسیہ ملعونہ اور اس کا خاندان متذکرہ ممالک میں سے کسی ایک کی شہریت حاصل کر لے گا۔
آسیہ ملعونہ کا کیس اگرچہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا لیکن اس پر بیرونی دبائو آتا رہا۔ نواز حکومت کی جانب سے ممتاز قادری کی پھانسی کا فیصلہ بھی اسی دبائو کا شاخسانہ تھا۔ ذرائع کے مطابق آسیہ ملعونہ کی رہائی کے حوالے سے پاکستان پر بیرونی دبائو کا سلسلہ اس وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا، جب 2010ء میں شیخوپورہ کی ایک عدالت نے اسے گستاخانہ کلمات کا اعتراف کرنے پر سزائے موت سنائی تھی۔ بعد ازاں یہ انٹرنیشنل دبائو آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ ذرائع کے مطابق آسیہ ملعونہ کے شوہر عاشق مسیح نے شیخوپورہ کی عدالت کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو اس وقت کی حکومت نے مجرمہ کو صدارتی معافی دینے کی تیاری کر لی تھی۔ اس کا اعتراف خود اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے بھی کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ اگر ہائی کورٹ نے آسیہ کی سزا کو معطل نہیں کیا تو اسے صدارتی معافی دے دی جائے گی۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے اس متوقع صدارتی معافی کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا یوں یہ معاملہ رک گیا۔ ذرائع کے مطابق 2014ء میں ہائی کورٹ نے بھی جب آسیہ ملعونہ کی سزائے موت کو برقرار رکھا تو پاکستان پر بین الاقوامی دبائو مزید بڑھ گیا۔ اس موقع پر ایک بار پھر عاشق مسیح نے صدارتی معافی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں اس وقت کے صدر ممنون حسین کو باقاعدہ تحریری طور پر معافی کی درخواست دی۔ ایک لیگی رہنما کے مطابق اگرچہ آسیہ ملعونہ کی رہائی کے لئے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی حکومت پر بھی بہت پریشر تھا۔ تاہم جب عاشق مسیح نے اپنی ملعونہ بیوی کی صدارتی معافی کے لئے صدر ممنون حسین کو خط لکھا تو اس وقت لیگی حکومت تحریک انصاف کے دھرنے سے نڈھال تھی۔ لہٰذا وہ اس درخواست پر عمل کر کے اپنے لئے ایک نیا پنڈورا بکس نہیں کھولنا چاہتی تھی۔ لیگی عہدیدار کے مطابق یورپی پارلیمنٹ اور ہیومن رائٹس انٹرنیشنل سمیت دیگر کئی ممالک کی جانب سے آنے والے دبائو کو لیگی حکومت برداشت کرتی رہی۔ بالخصوص ممتاز قادری کو پھانسی دیئے جانے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں نواز حکومت نے آسیہ ملعونہ کے معاملے کو پس پشت ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ آخری بار سپریم کورٹ نے آسیہ کے کیس کی سماعت اکتوبر 2016ء میں کی تھی۔ جس کے بعد سے ملعونہ کی اپیل زیر التواء تھی۔ اس دوران 2017ء میں آسیہ کے وکیل سیف الملوک نے کیس کی جلد سماعت سے متعلق درخواست دائر کی تاہم چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔ بعد ازاں اس کی تاریخ 8 اکتوبر کو فکس کی گئی اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔ جو 31 اکتوبر کو سنایا گیا۔ آسیہ ملعونہ کیس کے تمام اخراجات عیسائی این جی او Renaissance Education Foundation نے برداشت کئے، جو لاہور میں تعلیمی ادارہ چلا رہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment