حصہ اول
علامہ شیخ محمد بن البانی البزازؒ بیان کرتے ہیں:
میں مکہ معظمہ میں مجاور تھا۔ ایک دن ایسا آیا کہ کھانے کے لئے کچھ نہ ملا اور میں بھوک سے نڈھال ہوگیا۔ اسی حالت میں باہر نکلا تو راستے میں ایک تھیلی پڑی دیکھی، اٹھا کر دیکھا تو ریشمی تھیلی تھی اور ریشم کی ڈور سے بندھی ہوئی تھی۔ قیام گاہ پر لاکر کھولی تو دیکھا کہ اس میں نہایت قیمتی موتیوں کا ایک ہار ہے، میں بازار میں نکلا، دیکھا کہ ایک شخص رومال ہاتھ میں لئے پکار رہا ہے کہ میری تھیلی جس میں موتیوں کا ہار تھا، گم ہوگئی ہے، جو صاحب اس کا پتہ دیں گے، ان کو شکریہ کے طور پر پانچ سو دینار انعام دوں گا، جو اس رومال میں بندھے ہیں۔
میں اس شخص کو اپنے گھر لے آیا اور تھیلی نکال کر اس کے حوالے کی، وہ شخص بڑا ممنون ہوا اور حسب وعدہ پانچ سو دینار پیش کئے، لیکن میں نے لینے سے معذرت کی اور کہا کہ میں نے یہ کام رضائے الٰہی کی خاطر کیا ہے، اجرت لے کر میں اپنا اجر ضائع نہیں کرنا چاہتا، تاہم اس شخص نے ان کے قبول کرنے پر بہت زور دیا، لیکن میں برابر انکار کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ تنگ آکر چلا گیا۔
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد میں نے مکہ معظمہ سے رخت سفر باندھا اور ایک سمندری جہاز پر سوار ہو گیا، بدقسمتی سے راستے میں طوفان آگیا اور جہاز ایک چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔ میرے سوا سب مسافر ڈوب گئے۔ میرے بچنے کی یہ صورت ہوئی کہ تختہ میرے ہاتھ آگیا اور میں اس پر بیٹھ گیا، بہتا بہتا ایک جزیرے کے ساحل تک پہنچ گیا۔ (جاری ہے)