قسط نمبر47
سید ارتضی علی کرمانی
ایک ٹھوکر:
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ بغداد کے ایک بازار میں ایک بدمعاش آدمی نے زبردستی کرتے ہوئے ایک شریف عورت کو پکڑ لیا اور اس کو گھسیٹ کر لے جانے لگا۔ عورت نے اس بلائے ناگہانی پر چیخنا شروع کردیا اور لوگوں کو آوازیں دینا شروع کیں۔ جب لوگ اس شریف عورت کو بدمعاش سے پنجے سے چھڑانے کے لئے آگے بڑھھے تو بدمعاش نے ایک دم چاقو نکال لیا یہ دیکھ کر سب لوگ وہیں رک گئے اور ڈر کے مارے کوئی بھی آگے نہ ہوا۔ اتفاق سے عین اس وقت حضرت بشر بن حارثؒ ادھر سے گزرے۔ آپ نے اس شور کو سنا تو معاملے کو سمجھ گئے اور انتہائی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھے، اس بدمعاش کے کندھے کو اپنے کندھے سے ٹھوکر لگائی ٹھوکر لگتے ہی وہ بدمعاش یکدم زمین پر گر پڑا اور خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔
اتنی دیر میں وہ عورت وہاں سے بھاگ کر چلی گئی اور حضرت بشر بن حارثؒ بھی وہاں سے تشریف لے گئے۔ سب لوگ اس بدمعاش کے گرد اکھٹے ہوگئے اور اس کو زمین سے اٹھاتے ہوئے پوچھنے لگے کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ وہ بدمعاش کہنے لگا کہ میں اور تو کچھ نہیں جانتا، لیکن اتنا معلوم ہے کہ جب حضرت بشرؒ نے میرے کندھے کو ٹھوکر لگائی تو مجھے صرف یہ ارشاد فرمایا کہ خبردار! تیرے اس برے عمل کو خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ یہ جملہ سننا تھا کہ میرے جسم پر کپکپکی طاری ہوگئی اور میں دھڑام سے زمین پر گر پڑا اور اب میں نے سچے دل سے گناہوں سے توبہ کرلی۔ (روضۃ الریاحین)
گلیم پوشی کا حق:
حضرت بشر حافیؒ نے جب توبہ کی سعادت حاصل کی اور اپنے مرشد سے گلیم وصوف سے سرفراز ہوئے اور اس کو پہننے کا شرف حاصل کیا تو پھر اس کے بعد چالیس برس تک آپ کو کسی نے بھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لوگوں نے ایک مرتبہ آپ سے پوچھا یا حضرت! چالیس برس ہوچکے ہیں، لیکن آپ کے لبوں پر مسکراہٹ تک نہیں آئی؟
آپ نے ارشاد فرمایا: میرے مرشد نے جب سے مجھے گلیم وصوف پہنا دی ہے، میں حیرت کے عالم میں ہوں، مجھے اپنی خبر نہیں رہی، میرے مرشد نے اپنا کام سر انجام دیا، اب مجھ پر لازم ہے کہ میں اس گلیم وصوف کے حق کو پورا کروں اور اس گدڑی کو پہننے کے بعد جو کچھ انہوں نے نہیں کیا، میں بھی نہ کروں، ورنہ کل قیامت کے روز اس گلیم کو سیاہ ناگ بنا دیا جائے گا اور میری گردن میں ڈال دیں گے۔ پس اے درویش! گدڑی پوش کے لبوں پر مسکراہٹ کیسے آسکتی ہے۔ (اسرار الاولیاء)(جاری ہے)