لا علاج مریض زہر سے شفایاب ہوا

ممتاز سائنسدان ابوبکر محمد بن زکریا الرازیؒ کہتے ہیں:
’’میں ایک مرتبہ امیر خراسان کے پاس گیا۔ واپسی پر مجھے ایک رئیس نے اپنے علاقے میں ٹھہرایا اور میری بڑی خاطر مدارت کی اور مجھ سے درخواست کی کہ میرے بیٹے کو استسقاء (یہ ایک بیماری ہے جس سے پیٹ بڑھ جاتا ہے اور پیاس بہت لگتی ہے) کی بیماری لاحق ہے، براہ کرم اس کا علاج کیجئے۔ میں نے رضا مندی کا اظہار کیا تو وہ مجھے اپنے لڑکے کے پاس لے گیا تو میں نے دیکھ کر مریض کے سامنے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے اس کے بچنے کی امید نہیں (جیسا کہ دور حاضر میں بھی اسپتالوں میں ڈاکٹر صاحبان بھی بعض مریضوں کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ مریض کو گھر لے جائو، اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں وغیرہ) اس کے باپ نے علیحدگی میں مجھ سے پوچھا کہ کیا واقعی میرے بیٹے کا مرض لاعلاج ہے؟
میں نے کہا: واقعی میرے پاس اس کا علاج نہیں اور مجھے اس لڑکے کی زندگی کی امید نہیں (حاذق حکیم نبض اور چہرہ شناس ہوتے ہیں) رئیس کا بیٹا بالکل ناامید ہو گیا، کیونکہ میرے لا علاج کئے ہوئے کا اور کوئی شخص کیا علاج کر سکتا تھا۔ میں نے اس کے باپ سے کہا کہ اس لڑکے کی تمام خواہشات پوری کر دینا، کیونکہ یہ جلدی مر جائے گا۔
اس کے بعد میں خراسان سے چلا گیا۔ تقریباً ایک سال کے بعد دوبارہ خراسان گیا، واپسی پر پھر اسی رئیس نے میری خوب خدمت کی اور میں اس سے بہت شرمندہ تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس کا لڑکا مر چکا ہو گا۔ لیکن میں نے اسے لڑکے کے بارے میں اس لئے بات نہ کی کہ وہ کہیں غم و اندوہ اور پریشانی میں مبتلا نہ ہو جائے۔
ایک دن اس رئیس نے مجھے کہا کہ کیا آپ اس لڑکے کو پہچانتے ہیں اور ایک نوجوان قوی اور سرخرو لڑکے کی طرف اشارہ کیا، جو ادھر ہی موجود تھا۔ میں نے کہا: میں نہیں جانتا یہ کون ہے؟ رئیس نے کہا یہ وہی لڑکا ہے، جس کی زندگی سے آپ نے مجھے مایوس کر دیا تھا۔ میں نے کہا یہ کیسے صحت مند ہوا ؟ رئیس نے کہا آپ کے جانے کے بعد اس لڑکے نے مجھے کہا کہ اتنے بڑے طبیب اعظم نے میری زندگی سے ناامیدی کا اظہار کیا ہے، اس لئے آپ ان غلاموں اور نوکروں کو جو میری خدمت پر مامور ہیں ہٹا دیجئے۔ کیونکہ جب میں ان غلاموں کو صحیح سلامت چلتے پھرتے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی حالت پر بڑا دکھ ہوتا ہے۔ (یہ انسانی فطرت ہے) میرے پاس صرف ایک بڑھیا کو رہنے دیا جائے میں نے ویسا ہی کیا جیسا لڑکے نے کہا تھا۔ (لڑکے کے دل میں یہ بات بھی حق جل شانہٗ نے ہی ڈال دی، جو اس نے باپ کو یہ تجویز دیدی) اور تمام نوکروں کو علیحدہ کر کے ایک عورت کو جو بوڑھی تھی، اس کی خدمت پر مامور کر دیا۔
ایک دن وہ عورت ایک پیالے میں دہی ڈال کر لڑکے کے کمرے میں لے گئی اور ایسی جگہ وہ پیالہ رکھ دیا، جہاں سے وہ لڑکے کو نظر آتا تھا اور خود کسی کام سے وہ دوسری طرف چلی گئی۔ اتنے میں کمرے میں ایک بڑا سانپ آ نکلا۔ اس نے اس پیالے میں سے دہی کھایا پھر اسے پیالے میں اگل دیا اور جدھر سے آیا تھا، واپس چلا گیا۔ لڑکا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ میری زندگی ختم ہونے کے قریب ہے۔ میں خواہ مخواہ گھر والوں کے لئے اور ان سے بڑھ کر اپنی ذات کیلئے مصیبت بنا ہوا ہوں تو کیوں نہ اس زہریلے دہی کو کھالوں اور موت کی آغوش میں جا پہنچوں۔
لڑکے نے وہ دہی اٹھا لیا اور جتنا کھا سکتا تھا کھالیا اور پیالہ پھر اسی جگہ رکھ دیا۔ جب بڑھیا واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ دہی کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ اس نے لڑکے سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو لڑکے نے صاف صاف سارا واقعہ اسے بتا دیا اور کہا کہ اس برتن کو مٹی میں دفن کر دو کہ کہیں کوئی آدمی غلطی سے اسے کھا کر داعی اجل کو لبیک نہ کہہ دے۔ بڑھیا نے وہ پیالہ دفن کر دیا۔ پھر میرے پاس آ کر ساری روداد مجھے سنائی۔ تو میں لڑکے کے کمرے کی طرف لپکا تو وہ سو رہا تھا۔ میں نے کہہ دیا کہ اسے مت جگائو اور اسے سونے ہی دو۔ لڑکا دن کے آخری حصے میں بیدار ہوا تو اس نے کھانا مانگا۔ لڑکا اس وقت کافی دبلا پتلا نظر آ رہا تھا۔ ایک رات اور ایک دن میں لڑکا تقریباً سو بار یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ رفع حاجت کے لئے اٹھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کی قوت واپس لوٹنے لگی اور اس کا پیٹ بہت کم رہ گیا۔ (یاد رہے کہ استسقاء کی بیماری سے پیٹ میں پانی بھر جاتا ہے اور جیسے اوپر لکھا گیا ہے) اب ہم نے لڑکے کو لوگوں سے دور رکھا اور اس کی دیکھ بھال کرتے رہے، حتیٰ کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بالکل توانا اور تندرست ہے۔
ابوبکر زکریا الرازیؒ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے والد کو بتایا کہ متقدمین یعنی پہلے بڑے بڑے حکماء نے کہا ہے کہ استسقاء کا مریض اگر کئی سو سال عمر والے سانپ یا اس کے زہر کو کھائے تو شفاء پا جاتا ہے۔ لیکن اگر میں تمہیں یوں کہتا تو تم یہ سمجھتے کہ میں ٹال مٹول کر رہا ہوں اور پھر تمہیں یہ کیسے پتہ چلتا کہ اس سانپ کی اتنی عمر ہے۔ یاد رہے کہ ابوبکر محمد بن زکریا الرازی، جدید ایران تہران کے قریب رے نامی ایک شہر ہے وہاں پیدا ہوئے۔ اس نے شہر رے اور بغداد میں پرورش پائی۔ بہت سے مسلمان سائنسدانوں میں سے الرازی بھی مسلمانوں کا ممتاز سائنسدان اور طبیب اعظم تھا۔ انہوں نے 924ء کو وفات پائی۔ (بے مثال واقعات)

Comments (0)
Add Comment