تحریک لبیک نے مزاکرات کی خبروں کو دھوکا قرار دیدیا

امت رپورٹ
تحریک لبیک پاکستان نے مذاکرات کی کامیابی اور دھرنے کے خاتمے سے متعلق اطلاعات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ محض سرکاری پروپیگنڈا ہے، جو تحریک کو ناکام کرنے کے لئے اپنے من پسند چینلوں کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔ جمعرات کی رات ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر اس کی تصدیق تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان پیر اعجاز اشرفی نے بھی کی اور کہا کہ دھرنے یا مذاکرات کے حوالے سے وہی خبر اور اعلان معتبر ہو گا، جو لاہور پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے میں موجود قیادت کی جانب سے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ بعض ٹی وی چینلز کی جانب سے یہ خبریں چلائی گئیں کہ مظاہرین اور حکومت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، جبکہ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا حوالہ دیتے ہوئے جلد خوشخبری کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ دوسری جانب وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ معاملات تقریباً طے پا چکے اور یہ کہ مظاہرے آج رات ختم ہو جائیں گے۔
تاہم اس سلسلے میں جب ’’امت‘‘ نے لاہور میں موجود تحریک لبیک کے اعلیٰ عہدیداران سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ اعتراف تو کیا کہ حکومت کے بعض نمائندے لاہور دھرنے میں آئے تھے اور انہوں نے تحریک لبیک کی قیادت سے ملاقات بھی کی۔ لیکن چونکہ ان کی کوشش غیر سنجیدہ تھی، لہٰذا بات چیت میں کسی قسم کی پیش رفت نہ ہو سکی اور حکومتی نمائندوں کو ناکام لوٹنا پڑا۔ ان ملاقاتوں کے احوال سے واقف ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کی دوپہر وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری پنجاب اسمبلی لاہور کے دھرنے میں پہنچے تھے۔ ان کے ہمراہ چند دیگر حکومتی نمائندے بھی تھے۔ انہوں نے علامہ خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری اور دیگر قیادت سے ملاقات کی۔ تاہم یہ ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔ کیونکہ حکومت اس پر تو آمادہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی جائے اور اس اپیل کا فیصلہ آنے تک آسیہ ملعونہ کا نام ای سی ایل میں رکھا جائے، تاکہ اس کی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ بیرون ملک روانگی کو روکا جا سکے۔ لیکن تحریک لبیک کی قیادت کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے دو بنیادی مطالبے تسلیم نہیں کر لئے جاتے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ذرائع کے مطابق نورالحق قادری کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مذاکرات میں پیش رفت کے لئے تحریک لبیک کے دو مطالبات تسلیم کئے جانے ضروری ہیں۔ اول یہ کہ آسیہ ملعونہ کی رہائی کا فیصلہ سنانے والے تینوں جج صاحبان کو برطرف کیا جائے۔ اور دوئم یہ کہ فیصلے کے خلاف صرف نظر ثانی کی اپیل کافی نہیں، بلکہ آسیہ ملعونہ کی رہائی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ ذرائع کے مطابق اس نقطے پر بات چیت آگے نہ بڑھ سکی۔ اور علامہ خادم حسین رضوی نے حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ قوم سے خطاب میں مظاہرین کے خلاف جارحانہ انداز اختیار کرنے والے وزیر اعظم عمران خان نے بعد ازاں حسب روایت یوٹرن لیتے ہوئے بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کرنے کے لئے مذاکراتی کمیٹیاں قائم کی تھیں۔ ایک کمیٹی میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور شہریار آفریدی شامل ہیں۔ اور دوسری کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف میں اس وقت وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری واحد شخصیت ہیں، جو آسیہ ملعونہ کو رہا کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے سخت ناقد ہیں اور اس کا اعلانیہ اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول لنڈی کوتل جمرود سے رکن اسمبلی منتخب ہونے والے بریلوی مکتبہ فکر کے پیر نور الحق قادری نے ہی حکومت پر سب سے زیادہ زور دیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف ایکشن کے بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک روز قبل نور الحق قادری نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’’امید ہے ایک بار پھر انصاف کا بول بالا ہوگا اور سپریم کورٹ آسیہ مسیح کی سزائے موت کو برقرار رکھے گی‘‘۔ اور جب فیصلہ آسیہ ملعونہ کے حق میں آیا تو اس پر نورالحق قادری نے کھل کر تنقید کی۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق نہ صرف بذریعہ ٹوئٹ، بلکہ پارٹی کے حلقوں میں بھی نورالحق قادری سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’قانون کی رٹ لگانے اور عدالت سے رجوع کرنے کا درس دینے والے بتائیں کہ جب عدالتوں کا یہ حال ہے تو پھر عام مسلمان کیا سوچے گا؟ کیا ہم خود انہیں شدت پسندی کی طرف نہیں دھکیل رہے؟ عدالتیں، لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے پر کیوں مجبور کرتی ہیں؟‘‘۔ نور الحق قادری نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر یہ ٹوئٹ بھی کیا ہے کہ ’’ایس پی کی بار بار تفتیش کے باوجود آسیہ مسیح کا جرم ثابت ہوا۔ ٹرائل کورٹ نے اسے سزائے موت دی۔ مقدمہ کی مضبوطی کی بنیاد پر ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے یہ دونوں فیصلے کالعدم قرار دے دیئے۔ اس فیصلے سے دل بہت رنجیدہ ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق خود حکومت کے ایک وفاقی وزیر کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدم اطمینان مظاہرین کے موقف کو تقویت دینے کے لئے کافی ہے۔ بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیر نورالحق قادری اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے۔ تاہم انہوں نے یہ قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا عندیہ دینے والے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اس وقت سخت کنفیوژن کا شکار ہے۔ سرکاری اداروں نے رپورٹ دی ہے کہ ایکشن کی صورت میں حالات نہایت سنگین ہونے کا خدشہ ہے کہ کیونکہ احتجاج کا دائرہ ملک بھر میں پھیل چکا ہے اور چھوٹے علاقے، قصبے اور دیہات بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ ذرائع کے بقول اس تناظر میں ہی نہ صرف مظاہرین سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا، بلکہ اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی سے مدد کے لئے بھی ہاتھ پھیلا دیا گیا ہے۔ اپوزیشن سے مدد کیلئے رابطوں کے عمل کو وزیر اعظم عمران خان کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اور فی الحال یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ اس بحران سے نمٹے جانے تک حکومتی وزرا اور رہنما اپوزیشن کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے سے گریز کریں گے۔ ذرائع کے مطابق ایکشن کی دھمکی دینے والی حکومت کو اس لئے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے کہ جب وفاق کی جانب سے ایکشن کے لئے تمام صوبوں کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا تو سب نے ہی طاقت کے استعمال سے گریز کیا اور زور دیا کہ معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد امن و امان کا معاملہ صوبوں کے پاس ہے۔ ایک معاصر انگریزی روزنامے نے بھی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد اور لاہور میں آپریشن کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں، تاہم بدھ کو رات گئے آخری لمحوں میں یہ آپریشن موخر کر دیا گیا۔ اخبار کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں آپریشن کیلئے رینجرز کو طلب کیا جا چکا ہے۔ جبکہ جڑواں شہروں میں کارروائی کیلئے ٹرپل ون بریگیڈ سے بھی مشاورت مکمل ہو چکی تھی کہ اگر مظاہرین نے پُرامن طور پر احتجاج ختم نہیں کیا تو طاقت کے زور پر انہیں منتشر کیا جائے گا۔ لیکن پھر اچانک یہ فیصلہ موخر کر دیا گیا۔
سیاسی رابطوں کے حوالے سے ذرائع نے بتایا، چونکہ زیادہ سنگین صورت حال پنجاب میں ہے، لہٰذا پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک کو یہ خصوصی ٹاسک دیا گیا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں صورت حال سے نمٹنے کیلئے وہ نون لیگ کی مدد حاصل کریں۔ جس کے بعد جمعرات کی شام پرویز خٹک کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے حکومتی وفد نے قومی اسمبلی کے چیمبر میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے حکومتی وفد کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی زیر ریمانڈ ملزم سے وزیر دفاع نے ملاقات کی ہو۔ ذرائع کے مطابق ابتدا میں معاملے کو ہلکا لینے والے حکمرانوں کو اب حالات کی سنگینی کا ادراک ہوتا جا رہا ہے۔ اس سچویشن نے حکومت کو اپنی سب سے کٹر سیاسی حریف پارٹی نون لیگ کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی قیادت اب پیپلز پارٹی کی منتیں بھی کر رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں دونوں پارٹیوں کے خلاف جاری کرپشن کی تحقیقات میں انہیں ریلیف ملنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ادھر تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی ترجمان پیر اعجاز اشرفی نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی کوششوں کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر میں دھرنے جاری ہیں اور آج ہڑتال کی جائے گی۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے پیر اعجاز اشرفی نے بتایا کہ ملک بھر کی تاجر تنظیموں، وکلا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تحریک لبیک پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہڑتال میں حصہ لینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ مذاکرات کی کامیابی اور دھرنے ختم کرنے سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اعجاز اشرفی نے کہا ’’حکومت کی جانب سے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے یہ خبریں چلائی جا رہی ہیں۔ ایک طرف حکومت مذاکرات کی باتیں کر رہی ہے تو دوسری جانب ملک کے مختلف حصوں سے ہمارے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ راولپنڈی میں ہمارے کارکنوں پر شیلنگ کی گئی اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ لاہور میں ایئرپورٹ کی طرف بھی ہمارے کارکنوں پر براہ راست فائرنگ ہوئی، جس میں چند کارکنان زخمی ہیں۔ جبکہ سندھی ہوٹل کراچی کے علاقے میں بھی انتشار پھیلانے کے لئے ہمارے دو نوجوانوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کیا گیا۔ بعد ازاں اس واقعہ کو دو گروپوں کے درمیان تصادم کا رنگ دے کر گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیاقت آباد سمیت کراچی کے دیگر علاقوں سے بھی ہمیں اسی قسم کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ جبکہ ساہیوال اور اوکاڑہ میں تحریک لبیک کے کارکنوں پر شیلنگ ہوئی ہے‘‘۔ پیر اعجاز اشرفی نے تصدیق کی کہ تحریک لبیک کی جانب سے آسیہ ملعونہ کی رہائی کا فیصلہ سنانے والے ججوں کی برطرفی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو واپس لینے کے دو بنیادی مطالبے کئے گئے ہیں۔ لیکن حکومت اس میں سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔

Comments (0)
Add Comment