آسیہ ملعونہ کی رہائی کے فیصلے پر عوامی رد عمل حکومت کی توقعات سے کئی گنا شدید نکلا۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کیلئے بنچ جلد قائم ہونے کا امکان ہے۔ جبکہ مقتدر اداروں نے بھی حکومت کو معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کی تجویز دی ہے۔
اسلام آباد میں موجود معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو آسیہ ملعونہ کی رہائی کے فیصلے پر اتنے شدید عوامی ردعمل کی بالکل بھی توقع نہیں تھی، اور اسی لیے امن و امان کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی بھی تیار نہیں کی گئی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں جس طرح فیصلے کا دفاع کیا اور احتجاج کرنے والوں کو قلیل طبقہ قرار دیا، اس نے مذہبی جماعتوں بالخصوص تحریک لبیک پاکستان کو مزید برہم کیا اور اشتعال دلایا۔ حکومت سے جڑے ان ذرائع کے مطابق مقتدر حلقوں کی جانب سے حکومت کو پیغام دیا گیا ہے کہ معاملے کو بات چیت سے سلجھانے کی کوشش کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان اپنے تین مطالبات پر ڈٹ گئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان مطالبات پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ اول، آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے پر نظر ثانی۔ دوم ملعونہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنا۔ اور سوئم، ملعونہ کے حق میں فیصلہ دینے والے ججوں کو برطرف کیا جائے۔ دوسری جانب علمائے کرام کی جانب سے محض دو مطالبات رکھے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں فی الفور نظر ثانی اپیل دائر کی جائے ۔ دوسرے، آسیہ مسیح کے ملک سے باہر جانے پر فوری پابندی عائد کر کے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ ذرائع کے بقول حکومت نے تحریک لبیک پاکستان سے مذاکرات کیلئے ٹیم تشکیل دے دی ہے، اور وزیر مذہبی امور نورالحق قادری جو خود بھی عدالتی فیصلے کے مخالف ہیں، تحریک لبیک کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ تاہم حکومت کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح تحریک لبیک یہ مان لے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے۔ جبکہ تحریک لبیک اور تمام مذہبی جماعتوں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ حکومت از خود فوری طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرے اور ملعونہ آسیہ کے ملک سے باہر جانے پر فوری طور پر پابندی عائد کرکے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالاجائے۔ علمائے کرام نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ چیف جسٹس اور بنچ کے دیگر جج آئین کے مطابق اپنے منصب کے اہل نہیں رہے، لہذا از خود مستعفی ہوجائیں۔ ان ذرائع کے مطابق حکومت ان مطالبات میں سے کسی کو بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتی، لیکن موجودہ حالات میں توقع ہے کہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے لئے بنچ جلد قائم ہو جائے۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ حالیہ ایشو پر ملک میں سیکولر اور مذہبی سیاست کا بھی فرق واضح ہونے لگا ہے۔ حکومت کو نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیکولر جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان سیکولر عناصر کی خواہش ہے کہ ان مذہبی عناصر کو سختی اور طاقت کے ساتھ کچل دیا جائے۔ لیکن حکومت اوردیگر سیاسی جماعتوں کے سنجیدہ عناصر کا یہ مشورہ ہے کہ معاملے کو تحمل اور بات چیت سے حل کیا جائے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، بلاول، خورشید شاہ اور دیگر رہنماؤں سے بھی مشاورت کر رہے ہیں۔ فواد چودھری کا کہنا ہے ملک بھر کے حالات کنٹرول میں ہیں۔ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ مظاہرین کے خلاف آپریشن کی سوشل میڈیا پر خبریں غلط ہیں۔ حکومت عوام کی زندگی اور آزادی کی ضامن ہے۔ حکومت تشدد کی راہ نہیں اپنانا چاہتی۔ اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن مذاکرات کی کوئی خبر تحریک لبیک کی جانب سے نہیںآئی۔ البتہ اس احتجاج میں تشدد کا عنصر غالب ہونے کی وجہ سے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عوامی اور نجی املاک اور گاڑیوں کو نقصان پہنچانے والوں کی گرفتاریاں کی جائیں اور ان پر جرمانے عائد کرکے اس نقصان کو پورا کیا جائے۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کی ہدایت پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیا۔ قومی ایشو پرسب ایک ہیں۔ ہر قدم سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے اٹھائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو کوئی بھی ریاستی رٹ کو چیلنج کرے گا، اسے حساب دینا ہو گا۔ عدالتیں، فوج اور ادارے آئین کے تابع ہیں۔ ریاست کا مقابلہ نہیں کر سکتے، قانون اپنا راستہ بنائے گا ۔دوسری جانب گزشتہ روز (جمعہ کو) وزیر مملکت برائے داخلہ شہریارآفریدی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں نمائندہ امت اور دیگر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں طاقت کا استعمال نہیں کرنا۔ مظاہرین کی قیادت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ معاملے کو مذاکرات سے حل کرلیا جائے گا۔ لیکن جلاؤ گھیراؤ ہوا تو قانون حرکت میں آئے گا۔