سر فروش

میں نے مانو کے سر پر پیار کیا۔ وہ دونوں جیپ سے اترے اور ایک گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ اس دوران میں شاٹ گن والے نے انہیں مسلسل نشانے پر رکھا ہوا تھا، جبکہ جرمن پستول کی نال کا رخ مسلسل میرے سینے کی طرف رہا۔ پھر وہ الٹے قدموں دوسرے گھوڑے کی طرف بڑھنے لگا۔ اس تمام عرصے کے دوران میں ہر لمحے ان خبیثوں کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع تلاش کرتا رہا، لیکن امر دیپ اور مانو کی زندگی کو لاحق خطرے نے مجھے کوئی غیر محتاط قدم اٹھانے سے باز رکھا۔
وہ دونوں یکے بعد دیگرے ایک ہی گھوڑے پر سوار ہوئے اور پھر امر دیپ کو اپنے آگے رہتے ہوئے گھوڑا بھگانے کا حکم دیا۔ میں بے بسی سے دیکھتا رہا اور دونوں گھوڑے اسی راستے پر دوڑتے میری نظروں سے اوجھل ہوگئے، جدھر سے ہم آئے تھے۔
میں کچھ دیر بت بنا بیٹھا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب میں کیا کروں؟ مجھے رہ رہ کر غصہ آرہا تھا کہ میں کیوں چپ چاپ وہ سب کچھ اپنے سامنے ہوتا دیکھتا رہا۔ اب میں حویلی جاکر اپنے مہربان میزبانوں کو کیا بتاؤں؟ کہ میں تماشا دیکھتا رہا اور میرے ہوتے ہوئے وہ خبیث اتنی آسانی سے اپنی من مانی کر گزرے۔ میں ان سب سے کیسے نظریں ملاؤں گا؟۔
ان لٹیروں نے بے شک تاوان ملنے پر امر دیپ اور مانو کو چھوڑ دینے کا یقین تو ضرور دلایا تھا، لیکن میں دل ہی دل میں مطمئن نہیں تھا۔ ان بدکردار لفنگوں کی زبان کا کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے رقم ملنے کے بعد ان کا لالچ مزید بڑھ جائے اور ان دونوں کو آزاد کرنے کے بجائے یہ مزید تاوان کا مطالبہ کر دیں۔ اس سے بھی زیادہ سنگین خطرہ یہ ہے کہ ان کی بدنیتی واضح ہونے پر کہیں امر دیپ مزاحمت پر نہ اتر آئے۔ یہ خطرناک لٹیرے اسے گولی کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی دیرنہیں لگائیں گے۔
تبھی ایک اور بھیانک خیال نے مجھے دہلاکر رکھ دیا۔ ان کے قبضے سے چھوٹ کر آنے کے باوجود امر دیپ ان کے لیے ایک مستقل خطرہ بن جائے گا۔ وہ ان کی نشان دہی کر کے انہیں عبرت ناک انجام سے دو چار کر سکتا ہے۔ ان لٹیروں کے لیے چند روپیوں کی گولی خرچ کر کے اس خطرے سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلینا زیادہ آسان ہے۔ ہو سکتا ہے بھاری رقم وصول کرنے کے بعد وہ کل مجھے بھی اسی انجام سے دو چارکرنے کا ارادہ کیے میرا انتظار کر رہے ہوں۔
میں ایک فیصلے پر پہنچ گیا۔ میں امر دیپ اور مانو کو ساتھ لے کر حویلی واپس جاؤں گا۔ چاہے انہیں آزاد کرانے کے لیے مجھے جان قربان کرنی پڑے۔ وہ لٹیرے دو تھے اور آتشیں ہتھیاروں سے مسلح بھی۔ لیکن میں بھی خالی ہاتھ نہیں تھا۔ میں جیپ بھگاکر انہیں پکڑ سکتا ہوں۔ یہ بات میرے حق میں جاتی ہے کہ وہ دونوں ایک گھوڑے پر تھے اور امر دیپ مانو سمیت دوسرے گھوڑے پر۔ میں موقع ملنے پر دونوں لٹیروں کو ایک ساتھ ڈھیرکر سکتا ہوں، جبکہ امر دیپ اور مانو دونوں طرف سے گولیاں چلنے کے باوجود خطرے کی زد سے محفوظ رہتے۔
مجھے تنگ راستے پر جیپ واپسی کے لئے موڑنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ لیکن مجھے پوری امید تھی کہ وہ لوگ میری پہنچ سے باہر نہیں ہوئے ہیں۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ دونوں لٹیرے امر دیپ کو گھوڑا بھگاکر فاصلہ بڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
میں نے سوچ لیا تھا کہ دور سے دونوں گھوڑوں کی جھلک ملتے ہی جیپ کی رفتار کم کرلوں گا اور فاصلہ رکھ کر پیچھا کرتا رہوں گا۔ اگر راستے میں لٹیروں کو مار گرانے کا مناسب موقع ملا تو حسبِ موقع کارروائی کرتے ہوئے انہیں مار گراؤں گا، ورنہ تعاقب کرتے ہوئے ان لٹیروں کے ٹھکانے تک پہنچنے کی کوشش کروں گا اور پھر ان کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی گردن دبوچ لوں گا۔
میں نے احتیاطاً ہیڈ لائٹس بند کرنے کے باوجود جیپ کی رفتار حتی الامکان تیز رکھی۔ میری خوش قسمتی یہ تھی کہ پورے چاند کی رات میں حد نگاہ خاصی دور تک کام کر رہی تھی۔ مجھے یاد تھا کہ یہ سڑک لگ بھگ ایک میل آگے جاکر دائیں طرف مڑے گی اور پھر ایک چھوٹی نہر کے پُل پر سے گزرے گی۔ میری خواہش تھی اس پُل کے آنے سے پہلے دونوں گھوڑے میری نظروں میں آجائیں۔ لیکن جب میں اس موڑ پر پہنچا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہاں سے ایک نیم پختہ راستے والی سڑک سیدھی بھی جا رہی ہے۔ لہٰذا میں شش و پنج میں پڑگیا کہ نہر کے پل کی طرف جاؤں یا جیپ کو اس نیم پختہ سڑک پر سیدھا بڑھاتا لے جاؤں۔ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے میں نے موڑ پر جیپ روک کر ہیڈ لائٹس روشن کر دیں۔ میں نے نیچے اتر کر ہیڈ لائٹ کی روشنی میں نیم پختہ سڑک کا گہری نظروں سے جائزہ لیا۔ میں کوشش کے باوجود گھوڑوں کے سموں کے بالکل واضح نشانات تلاش نہ کرسکا، لیکن مجھے لگا کہ یہاں فضا میں کچھ گرد پھیلی ہوئی ہے۔ بالآخر میں نے اللہ سے رہنمائی طلب کرتے ہوئے ہیڈ لائٹس ایک بار پھر بند کر کے جیپ اس نیم پختہ سڑک پر ڈال دی۔ میری آنکھیں بے تابی سے دونوں گھوڑے تلاش کر رہی تھیں، لیکن ان کا کہیں نشان نظر نہ آیا۔ لگ بھگ دو میل بعد وہ نیم پختہ سڑک کچے راستے میں تبدیل ہوگئی اور رفتہ رفتہ بائیں طرف گھومنے لگی۔
کچا راستہ آنے پر میں نے ایک بار پھر ہیڈ لائٹس روشن کیں اور جھک کر مٹی اور کنکر والے راستے پر سموں کے نشان تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ وہاںگھوڑوں کے سموں کے علاوہ کئی طرح کے مویشیوں کے کھروں کے نشانات کی بھی بہتات ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں کے پہیوں کے نشانات بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
یہی نہیں، بدقسمتی سے میں نئے اور پرانے نشانات میں امتیاز کرنے کی مہارت بھی کہاں رکھتا تھا۔ چنانچہ میری یہ جستجو رائیگاں گئی۔ مایوس ہوکر میں دوبارہ جیپ میں آ بیٹھا اور ایک بار پھر کچے راستے پر آگے بڑھنے لگا، جو رفتہ رفتہ مزید غیر ہموار اور کڈھب ہوتا جارہا تھا۔ ساتھ ہی اس کی چوڑائی بھی کم ہو رہی تھی۔
میں زیادہ آگے نہیں جا سکا۔ راستہ اتنا خراب ہوگیا تھا کہ جیپ کی رفتار بہت کم ہو گئی تھی اور اس کے کسی بھی وقت الٹنے کا خطرہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ دوسری طرف میری یہ امید بھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کمزور پڑتی جارہی تھی کہ میں درست راستے پر جارہا ہوں اور جلد ہی گھوڑوں کو ڈھونڈ نکالوں گا۔ بالآخر مجھے اس فیصلے پر پہنچنا پڑا کہ میری یہ کوشش رائیگاں گئی ہے اور میرے لیے اب مزید آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔
پوری طرح مایوس ہونے کے بعد میں نے بمشکل جیپ واپس موڑی اور اسی اوبڑ کھابڑ راستے سے واپس ہولیا۔ غالباً امید ٹوٹنے کی وجہ سے واپسی کا سفر کچھ زیادہ ہی طویل اور بیزار کن محسوس ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی یہ احساس بھی سوہانِ روح بنا ہوا تھا کہ امر دیپ اور مانو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مجھ سے دور اور پہنچ سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ شاید اب انہیں اغوا کرنے والوں کے حکم کی تعمیل کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ شاید اب مجھے بادل نخواستہ، شکست خوردگی کے عالم میں، منہ لٹکائے حویلی کا رخ کرنا پڑے گا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment