حافظ ابن رجب حنبلیؒ ابوالبرکات طلحہ بن احمد عاقولیؒ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں، وہ کہتے تھے، میرا ایک دوست تھا جس کا نام ثابت تھا، وہ بڑا نیک شخص تھا، تلاوت قرآن اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کیا کرتا تھا۔ اس کا انتقال ہو گیا اور میں کسی وجہ سے اس کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکا، میں نے خواب میں اس کی زیارت کی، میں نے اسے سلام کیا، اس نے میرے سلام کا جواب نہ دیا اور مجھ سے اعراض کیا، میں نے کہا: اے ثابت! تو مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا، جبکہ تو میرا دوست ہے اور تیرے اور میرے درمیان محبت و مودت کا رشتہ ہے؟ اس نے کہا: تو میرا دوست ہے پھر بھی تو نے میرا جنازہ نہیں پڑھا؟ میں نے اسے اپنا عذر بیان کیا اور معذرت چاہی۔
پھر میں نے اس سے پوچھا امام احمد بن حنبلؒ کے قبرستان میں تیرا کیا حال ہے؟ وہ شخص وہیں مدفون تھا۔ اس نے کہا: امام احمد بن حنبلؒ کے قبرستان میں کسی کو آگ کا عذاب نہیں ہوتا۔ (سلف صالحین کے ایمان افروز واقعات)
تاتاریوں کا فتنہ اور علامہ ابن اثیرؒ
علامہ ابن اثیر جزریؒ متوفی 630ھ تاتاریوں کے ظلم و ستم کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ یہ حادثہ اتنا ہولناک اور ناگوار ہے کہ میں کئی برس تک اس پس و پیش میں رہا کہ اس کا ذکر کروں یا نہ کروں، اب بھی بڑے تردد و تکلف کے ساتھ اس کا ذکر کر رہا ہوں ، واقعہ بھی یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی موت کی خبر سنانا کس کو آسان ہے اور کس کا جگر ہے کہ ان کی ذلت و رسوائی کی داستان سنائے؟ کاش میں نہ پیدا ہوا ہوتا، کاش میں اس واقعہ سے پہلے مر چکا ہوتا اور بھولا بسرا ہو جاتا، لیکن مجھے بعض دوستوں نے اس واقعہ کے لکھنے پر آمادہ کیا، پھر بھی مجھے تردد تھا، لیکن میں نے دیکھا کہ نہ لکھنے سے کچھ فائدہ نہیں۔ یہ وہ حادثہ عظمیٰ اور مصیبت کبریٰ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ اس واقعہ کا تعلق تمام انسانوں سے ہے، لیکن خاص طور پر مسلمانوں سے ہے، اگر کوئی شخص دعویٰ کرے کہ حضرت آدمؑ کے زمانے سے لے کر اب تک ایسا واقعہ دنیا میں پیش نہیں آیا تو وہ کچھ غلط دعویٰ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ تاریخوں میں اس واقعہ کے قریب قریب بھی کوئی واقعہ نہیں ملتا اور شاید دنیا قیامت تک (یاجوج ماجوج کے سوا) کبھی ایسا واقعہ نہ دیکھے، ان وحشیوں نے کسی پر رحم نہیں کھایا، انہوں نے عورتوں، مردوں اور بچوں کو قتل کیا، عورتوں کے پیٹ چاک کر دیئے اور پیٹ کے بچوں کو مار ڈالا، یہ حادثہ عالمگیر عالم آشوب تھا، ایک طوفان کی طرح اٹھا اور دیکھتے دیکھتے سارے عالم میں پھیل گیا۔
مستنصر کے کتب خانے کی فہرست
خلیفہ مستنصر کے کتب خانہ کی فہرست 44 جلدوں میں تھی اور ہر جلد میں 50 ورق تھے، ان جلدوں میں صرف کتابوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ کتابوں کی تعداد 4 لاکھ، بقول بعض کے 6 لاکھ تھی اور تمام کتابوں کو الحکم نے خود پڑھا تھا، ان میں سے اکثر پر حواشی نہایت محنت سے لکھے تھے، ادیبات عرب یعنی فن رجال اخبار و انساب میں خلیفہ الحکم اپنا مثل نہ رکھتا تھا۔
٭٭٭٭٭