سرفروش

عباس ثاقب
مجھ پر بددلی طاری تھی لیکن پکی سڑک پر واپس پہنچنے پر میری ہمت اور حوصلہ ایک بار انگڑائی لے کر بیدار ہوگئے۔ میرے پاس ابھی ڈور کا ایک سرا موجود تھا کہ ان بدمعاشوں نے مجھے رقم لے کر گردیال پور کے جنگل پہنچنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اسی طرف گئے ہوں گے۔ میں مقامی لوگوں سے اس جنگل کا پتا پوچھ کر ان اغواکنندگان کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچ سکتا ہوں۔
نہر کا پل پار کرنے کے بعد میں نے جیپ کی رفتار بڑھادی ۔ لگ بھگ پانچ میل پیچھے ہم ایک اچھے خاصے بڑے گاؤں کے پاس سے گزرے تھے۔ امید تھی کہ وہاں سے مجھے اپنی منزل کا کچھ اتا پتا ضرور مل جائے گا۔
دیہی علاقوں میں تو ویسے بھی لوگ رات گہری ہونے سے پہلے ہی بستر سنبھال لیتے ہیں، تو موسم ِ سرما کی اس رات مجھے اس گاؤں کے گلی کوچوں میں چہل پہل کیسے ملتی؟ مجھے جیپ کھڑی کرکے ڈھونڈنا پڑا، بالآخر ایک چھوٹی سی چوپال میں مجھے چار دیہاتی چوپڑ (پچیسی، ایک کھیل) کھیلتے مل گئے۔ میں نے گرم جوشی سے انھیں ست سری اکال کہا۔ ان سب نے قدرے تعجب کے ساتھ جواب دیا، پھر ان میں سب سے معتبر اور مقتدر دکھائی دینے والے شخص نے میرے حلیے کے پیش نظر ٹھیٹھ پنجابی لہجے والی ہندی میں مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں اور وہ میری کیا مدد کرسکتے ہیں۔ میں نے اس کا قیاس درست ثابت کرنے کے لیے اردومیں کہا ’’دراصل میں راستہ بھٹک گیاہوں۔ آپ لوگوں سے رہنمائی درکار ہے۔‘‘
اسی شخص نے پوچھا ’’آپ کہاں سے آئے ہیں، کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’میرانام محمود الحسن ہے اور میں کرنال سے تعلق رکھتاہوں۔ مجھے میرے کالج کے دوستوں جسپندر بالی اور پرم جوت سنہا نے نیل گائے کے شکار کے لیے بلایا ہے۔ انھوں نے مجھے گردیال پور کے جنگل کا راستہ سمجھایا تھا، لیکن میں شاید جیپ پر پٹیالے سے نکلنے کے بعد کوئی غلط موڑ مڑگیا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ میں صحیح راستے سے دور ہوتا جارہا ہوں۔‘‘
’’گردیال پور کا جنگل؟‘‘ اس شخص نے کچھ حیران اور کچھ سوالیہ لہجے میں دہراکر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ پھر جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کردیا ’’آپ کے ساتھ اور کون کون ہے؟ ‘‘
میں کہا ’’میں اکیلا ہوں۔ آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟‘‘
اس نے گویا اضطراب سے پہلو بدلتے ہوئے استفسار کیا ’’اکیلے ہو؟ آپ کو شاید پتا نہیں۔ گردیال پور جنگل شکار سے زیادہ ڈاکوؤں کا اڈا ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہ آپ سے جیپ سمیت سب کچھ چھین کر جان سے ماردیں گے اور پھر گیدڑ اور لومڑ کئی دن آپ کی لاش پر دعوت اڑائیں گے۔‘‘
میں نے دیکھا کہ اس کے تینوں ساتھیوں نے زور زور سے گردن ہلاکر اس کی تائید کی ہے۔ میںنے اس کی بات غور سے سنی اور پھر اپنے لہجے میں تشویش بھرتے ہوئے کہا ’’یہ تو بہت خطرناک بات ہے، لیکن مجھے گردیال پور تو پہنچنا ہی ہے۔ میرے دوست وہاں میرا انتظار کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ جوہڑ کے پاس خیمہ لگا کر میرا انتظار کریں گے۔‘‘
میری بات سن کر ان چاروں میں سے ایک اور نے پرجوش لہجے میں سوال کیا ’’جوہڑ؟ اچھا تو یہ بات ہے۔ آپ کے دوست جنگل میں نہیں، گردیال پور بستی میں آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ جوہڑ جنگل میں نہیں، بستی کے باہر ہے۔‘‘
اس نے محض اندازے سے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ میرے مقصد کیلئے فائدہ مند تھا ، چنانچہ میں نے اس کی بات آگے بڑھائی ’’کیا گردیال پور نام کی کوئی بستی بھی ہے؟ میں توسمجھا تھا کہ گردیال پور جنگل ہی کا نام ہے۔‘‘
میری بات سن کر ان میں سے پردھان کی ذمہ داری نبھانے والے شخص نے نسبتاً مطمئن لہجے میں کہا ’’گردیال پور بستی میں جانا اتنا خطرناک نہیں ہے۔ میرا خیال ہے آپ کے دوست دن کے وقت شکار کے لیے نکلیں گے۔ سورج چڑھنے کے بعد وہاں جانے میں کم خطرہ ہوتا ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’ہاں ، ہم صبح سویرے نکلیں گے۔ ویسے بھی ہم خالی ہاتھ نہیں ہیں۔ ساتوں بندوں کے پاس بندوقیں اور طمنچے ہوں گے۔‘‘
پردھان جی اب پوری طرح مطمئن دکھائی دے رہے تھے ’’پھر تو ٹھیک ہے، آپ رات کے وقت اکیلے جاتے تو بہت برا حشر ہوتا۔‘‘
میں نے کہا ’’تو مہربانی کرکے کوئی ایسا راستہ بتائیں جس سے میں جلد از جلد اپنے دوستوں کے پاس گردیال پور بستی پہنچ جائوں۔‘‘
پردھان جی نے فرش پر بچھے نمدے پر انگلی سے فرضی لکیریں کھینچتے ہوئے رہنمائی شروع کی ’’آپ یہاں سے سڑک پر دو میل سیدھے چلیںگے تو سیدھے ہاتھ پر ڈھالی وال پنڈ آئے گا۔ وہاں سے تین میل آگے آپ کو بھنڈر بستی ملے گی۔ ایک ایک، دو دو میل کے فاصلے پر دو تین چھوٹی بڑی بستیاں اور آئیں گی لیکن آپ سیدھے چلتے چلے جانا۔ گیارہ بارہ میل کا فاصلہ طے کرلیں گے تو سڑک بادشاہ پور قصبے سے گزرے گی۔ ضرورت ہو تو وہاں سے آپ کو جیپ کے لیے تیل بھی مل جائے گا۔‘‘
وہ سوچنے کے لیے ایک لمحے رکا، پھر بات آگے بڑھائی ’’وہاں سے تین میل آگے آپ ایک اور قصبے ننھیرا کے پاس سے گزریں گے۔ یہ گردیال پور سے پہلے آخری بڑی آبادی ہے۔ یہیں علاقے کی واحد پولیس چوکی بھی ہے لیکن وہاں نفری اور ہتھیار نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے رات کو گشت نہیں ہوتا اور اردگرد کے علاقوں پر ڈاکوؤں کا راج ہوتا ہے۔‘‘
اس موقع پر اس کے ایک ساتھی نے بات چیت کی باگ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ’’ننھیرا سے گردیال پور تک کی سڑک کی حالت بہت خستہ ہے لیکن رفتار ہلکی نہ رکھنا۔ دو میل آگے بڑھتے ہی سیدھے ہاتھ پر گردیال پور کا جنگل شروع ہوجائے گا۔ آگے بڑھیں گے تو سڑک سیدھے ہاتھ مڑ کر ایک میل آگے گردیال پور بستی پہنچ جائے گی۔ آپ بستی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتے جانا۔ بستی کی حد ختم ہونے کے بعد ایک کچی سڑک الٹے ہاتھ پر مڑے گی۔ آپ اس پر جیپ موڑ لینا۔ ڈیڑھ فرلانگ بعد پھرایک کچا راستہ سیدھے ہاتھ پر مڑے گا جو آپ کو سیدھا جوہڑ پر لے جائے گا۔‘‘
اس موقع پر پردھان نے مداخلت کی ’’یہ خیال رکھنا کہ گردیال پور بستی تک جنگل مسلسل آپ کے سیدھے ہاتھ پر چلے گا۔ لیکن ایک نہر بھی جنگل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہی ہوگی جو ایک طرح سے حد بندی کا کام کرتی ہے۔ اگر آپ جوہڑ والے کچے راستے پر نہ مڑیں تو اسی روڈ پر تین فرلانگ آگے سیدھے ہاتھ پر چلتی نہر پر ایک پل آئے گا، اسے پار کرتے ہی ایک کچے راستے پر چلتے ہوئے جنگل میں داخل ہوجائیں گے ۔ شروع میں جنگل کم گھنا ہے، لیکن انگریزوں کے زمانے کے ایک ڈاک بنگلے کے پاس سے گزرتے ہی جنگل ایک دم گھنا ہوجاتا ہے اور ایک طرح سے ڈاکوؤں کا علاقہ شروع ہوجاتاہے۔ اسی لیے رات کے وقت نہر کا پل پار کرنا خطرناک سمجھا جاتا ہے۔‘‘
میں یہ تمام باتیں ذہن نشیں کررہا تھا۔ میں نے پوچھا ’’کیا اس ڈاک بنگلے میں سرکاری عملہ نہیں ہوتا؟‘‘
پردھان جی نے نفی میں سرہلایا ’’یہ ڈاک بنگلا پٹیالے کے مہاراجا بھوپندر سنگھ نے انگریزوں کے زمانے میں بنوایا تھا۔ اس زمانے میں اس جنگل میں شیر چیتے بھی ہوتے تھے اور مہاراجا دوست ریاستوں کے راجوں اور نوابوں اور انگریز حکمرانوں کو شکار کرانے یہاں لایا کرتا تھا اور اس ڈاک بنگلے میں قیام ہوتا تھا۔ پھر یہاں رفتہ رفتہ شیر چیتے بھی ختم ہوگئے اور انگریزوں کو بھی ہندوستان پر اپنا راج بچانے کی پڑگئی۔ یوں رفتہ رفتہ یہ ڈاک بنگلا ویران ہوگیا۔ اب یہاں خستہ حال عمارت تو موجود ہے لیکن اب شاید وہاں بھوت ہی بستے ہوں گے۔‘‘
میں نے یہ سن کر اندھیرے میں تیر چلایا ’’ہوسکتا ہے اب وہ ڈاک بنگلا ڈاکوؤں کا ٹھکانا بن چکا ہو اور وہ وہیں سے وارداتیں کرنے نکلتے ہوں؟‘‘
پردھان نے کاندھے اچکا کر لاعلمی ظاہر کی ’’واہگرو ہی جانتا ہے۔ ہوسکتا ہے اسے وہ ضرورت پڑنے پر ٹھکانے کے طور پر استعما ل کرتے ہوں۔کس میں اتنی ہمت ہے کہ رات کے وقت وہاں جاکر پتا لگائے۔‘‘
پردھان کے ایک ساتھی نے لقمہ دیا ’’بھائی ڈاکوؤں کے یہ گروہ کوئی ولایت سے تھوڑی آئے ہیں۔ لگ بھگ سب آس پاس کی بستیوں اور پنڈوںسے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا جنگل میں مستقل ٹھکانا تھوڑی ہوتا ہے۔ مل کر ڈاکا ڈالنے کا منصوبہ بناتے ہیں اور جنگل میں روپوش ہوجاتے ہیں۔ پھر حصے بخرے کرنے کے بعد ایک ایک کرکے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔‘‘
میں نے ان کی فراہم کردہ معلومات میں دل چسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’آپ کے خیال میں اس جنگل کو ڈاکوؤں کے کتنے گروہ اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے ہوئے ہیں۔‘‘
میری بات کا جواب پردھان جی نے دیا ’’میرے اندازے کے مطابق تین یا چار۔ انھوں نے شاید جنگل میں اپنے اپنے حصے بانٹ رکھے ہیں۔ جنگل کے پیچھے گھگھر دریا بہتا ہے۔ اسی کے کنارے کنارے ان کے گھاس پھونس کی جھونپڑیوں پر مشتمل ٹھکانوں کی موجودگی کا زیادہ امکان ہے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment