مولانا سمیع الحق کے خاندان نےذاتی زنجش کا عنصر مسترد کردیا

وجیہ احمد صدیقی
مولانا سمیع الحق کی شہادت کے حوالے سے پولیس اور لبرل و سیکولر عناصر کے اس دعوے کو مولانا سمیع الحق شہید کے خاندان نے مسترد کردیا ہے کہ ان کو کسی نے ذاتی رنجش پر قتل کیا ہے۔ دوسری جانب افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس کی جانب سے کئے گئے ٹوئٹ میں مولانا سمیع الحق کے قتل پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم نے عبدالرازق کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے، جو قندھار کا پولیس چیف تھا۔
’’امت‘‘ نے مولانا سمیع الحق کے قریبی ساتھی اور داماد مولانا یوسف شاہ سے خصوصی گفتگو کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ مولانا کی کسی سے بھی ذاتی رنجش نہیں تھی۔ وہ ذاتی مفاد کو کبھی ترجیح ہی نہیں دیتے تھے۔ اس لئے یہ دعوے بکواس کے علاوہ کچھ نہیں کہ انہیں ذاتی رنجش میں قتل کیا گیا ہے۔ مولانا یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ ’’جن لوگوں کی آنکھوں میں مولانا سمیع الحق کھٹک رہے تھے ان کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے۔ ان کا سیکریٹری اور ڈرائیور گھر کا سامان لینے چلے گئے تو قاتلوں نے ان پر حملہ کردیا۔ ہمیں اندازہ تھا کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے مولانا کا کردار بہت اہم تھا۔ انہی لوگوں نے قاتلانہ حملہ کیا، جو افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔ مولانا یوسف شاہ کے بقول مولانا سمیع الحق نے پاکستان میں بھی قیام امن کیلئے اہم کردار ادا کیا او بارہا ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جانے سے روکا ہے۔‘‘
مولانا سمیع الحق کے بھانجے مولانا عرفان الحق نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی کسی سے کوئی ذاتی رنجش نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی سیکورٹی کیلئے کبھی پریشان نہیں رہے۔ جو شخص ذاتی دشمنیاں پالتا ہے، وہ اپنی سیکورٹی کا بھی اسی لحاظ سے انتظام کرتا ہے۔ لیکن مولانا کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ عرفان الحق نے بتایا کہ مولانا سمیع الحق آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کیخلاف احتجاج میں شرکت کیلئے آئے تھے، لیکن اسلام آباد جانے والے راستوں کی بندش کی وجہ سے وہاں نہیں جاسکے۔ قاتلوں کو یہ بات معلوم تھی کہ وہ اپنے سیکریٹری کے ساتھ گھر پر ہیں اور وہ تاک میں تھے۔ جب ان کا سیکریٹری ڈرائیور کے ساتھ گھر سے نکلا تو قاتلوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور انہیں شہید کردیا۔ مولانا یوسف شاہ اور مولانا عرفان الحق کا کہنا تھا کہ مولانا سمیع الحق روزنامہ امت باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور ’’امت‘‘ کی اشاعت میں اضافے کیلئے دعائیں اور کوششیں بھی کیا کرتے تھے۔
مولانا سمیع الحق کی شہادت کے حوالے سے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں عسکری تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ جس طرح مولانا کا قتل ہوا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی کارروائی ہے جن کو مولانا جانتے تھے اور ان کی مولانا سے تواتر کے ساتھ ملاقات ہوتی تھی ۔ لیکن ابھی تک اس کیس کی اطمینان بخش تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں، میڈیا پر متضاد خبریں آئی ہیں۔ پہلے یہ خبرآئی کہ ان پر لوہی بھیر میں فائرنگ کی گئی۔ لیکن پھر انکشاف ہوا کہ ان کو گھر پر قتل کیا گیا اور اس کی تصویر بھی آگئی۔ وہ یقیناً ایسے لوگ تھے، جن کی خاطر کرنے کیلئے چیزیں لینے مولانا کا خادم گھر سے باہر گیا۔ اصل معاملہ کیا ہے اس بارے میں تفتیش اور تحقیق کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ لیکن افغانستان سے این ڈی ایس کے ٹوئٹ نے بھی شکوک میں اضافہ کیا ہے۔ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ مولانا سمیع الحق صلح پسند شخصیت تھے وہ بظاہر فی الوقت کسی ایسے کام میں شامل نہیں تھے کہ ان کے قتل سے اس کام کو نقصان پہنچتا۔ ایک اور سینئر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے قتل سے پاکستان کو کمزور کرنا مقصود ہے۔ ان کے ہزاروں چاہنے والے سوگ کی کیفیت میں ہیں۔ لیکن ان کے قتل سے این جی اوز میں خوشی کی لہر موجود ہے۔ انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار فرزانہ باری نے مولانا کی ہلاکت پر تاثرات دیتے ہوئے جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’سب سے پہلے تو میں ان کے قتل کی بھرپور مذمت کرتی ہوں۔ کسی بھی شخص کا اس طرح قتل کیا جانا قابلِ مذمت ہے۔ لیکن ہمیں یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مولانا نے ساری زندگی ایسے لوگوں کی سرپرستی کی جن کو انسانی حقوق پر کوئی یقین نہیں تھا۔ وہ ایسی تنظیموں کے حامی رہے، جنہوں نے پاکستان اور افغانستان میں نہ صرف انتہا پسندی کو فروغ دیا، بلکہ طاقت کے بل بوتے پر رجعتی پالیسیاں بھی نافذ کرنے کی کوشش کی، جس سے ان دونوں ممالک کو بہت نقصان پہنچا اور معاشرے میں مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تفریق بڑھی۔ ان کے قتل کے بعد ملک میں عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔‘‘ اسی طرح لبرل اور سیکولر طبقے کی جانب سے اس قتل کو ذاتی معاملہ قرار دے کر مولانا کے اصل قاتلوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ مولانا کا قتل ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان پر امریکہ کی طرف سے شدید دباؤ ہے کہ وہ افغان طالبان کو مذکرات کی میز پر لائے۔ ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد یہ کام پاکستانی حکومت کیلئے بہت مشکل ہو جائے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment