امت رپورٹ
جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کیس میں تاحال کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق کے ذاتی محافظ و ڈرائیور مولانا احمد حقانی اور پرسنل سیکریٹری مولانا سید احمد شاہ نے اب تک سی ٹی ڈی کو جو معلومات فراہم کی ہیں اسی کی روشنی میں تفتیش کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ مولانا سمیع الحق کے ان دونوں ملازمین کو قبل ازیں تفتیش کے لئے پولیس نے تحویل میں لیا تھا۔ اور ان سے ڈھائی سے تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔ بعد ازاں مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کے کہنے پر دونوں ملازمین کو جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے ان ملازمین کو مزید تفتیش کے لئے دوبارہ حراست میں لے لیا گیا ہے۔ جبکہ جائے وقوعہ کو سیل کر کے شواہد پہلے ہی محفوظ کئے جا چکے ہیں۔ پولیس اس گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ بھی لے رہی ہے، جہاں مولانا سمیع الحق کو قتل کیا گیا۔ چونکہ گھر کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے کام نہیں کر رہے تھے لہٰذا گھر کے باہر اور نجی ہائوسنگ سوسائٹی کی اسٹریٹ پر لگے قریبی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج تفتیش میں مدد کے لئے حاصل کی گئی ہے۔ واقعہ کے فوری بعد جے یو آئی (س) کے ایک رہنما نے مولانا سمیع الحق کے ڈرائیور و محافظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا سمیع الحق اکیلے تھے اور جب ملازمین بازار سے گھر کی طرف آ رہے تھے تو انہوں نے ایک موٹر سائیکل پر تین افراد کو واپس جاتے ہوئے دیکھا۔ تاہم سیکورٹی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مولانا سمیع الحق کے گھریلو ملازمین نے ابتدائی بیان میں کہا ہے کہ کچھ لوگ مولانا سمیع الحق سے ملنے کے لئے آئے تھے، کیونکہ پہلے بھی ان کی آمد و رفت رہتی تھی اس وجہ سے انہوں نے زیادہ غور نہیں کیا۔ اور وہ مولانا کو چھوڑ کر بازار سودا سلف لینے چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق پولیس اس نقطے پر غور کر رہی ہے کہ دونوں ملازمین ایک ہی وقت میں کیوں بازار گئے۔ پھر یہ کہ وہ ان لوگوں کو یقیناً پہچانتے تھے جو ان کی موجودگی میں گھر پر آئے۔ تاہم تفتیش متاثر ہونے کے خدشے کے سبب ان لوگوں کے نام صیغہ راز میں رکھے جا رہے ہیں۔ ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ مولانا سمیع الحق نے زخمی حالت میں سوسائٹی کی سیکورٹی کو خود فون کیا۔ یعنی وہ موقع پر جاں بحق نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے اسپتال پہنچنے سے قبل راستے میں دم توڑا۔ ذرائع کے بقول تفتیش کار ایمبولینس کے ڈرائیور اور اس کے معاون کو بھی حراست میں لینے پر غور کر رہے ہیں۔ کیونکہ زخمی حالت میں مولانا سمیع الحق نے جو کچھ بھی بتایا، وہ بھی تفتیش کو آگے بڑھانے کے لئے بہت اہم ہے۔ مولانا سمیع الحق کے پیٹ، سینے، ماتھے، بازو، رخسار اور کان پر چھریوں کے دس سے بارہ وار کئے گئے۔ اس کے باوجود ان میں اتنی سکت تھی کہ انہوں نے سوسائٹی کی سیکورٹی کو فون کیا۔ تاہم بعد میں زیادہ خون بہہ جانے کے سبب جانبر نہ ہو سکے۔
مولانا سمیع الحق کے قتل کے پس پردہ محرکات کے بارے میں سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیش کار اس وقت کم از کم تین پہلوئوں پر تفتیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ مولانا سمیع الحق کے خاندان نے اس واقعہ میں ذاتی دشمنی کے عنصر کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ لیکن تفتیش کار اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کر رہے۔ البتہ تفتیش کاروں کا زیادہ فوکس مقتول رہنما کو افغانستان سے ملنے والی دھمکیوں پر ہے۔ کیونکہ نہ صرف مولانا سمیع الحق کی فیملی نے بتایا ہے کہ انہیں افغانستان سے دھمکیاں مل رہی تھیں بلکہ اداروں نے افغانستان سے آنے والے اس طرح کے بعض میسجز بھی سنے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق کا نہ صرف افغان طالبان پر کافی حد تک اثر و رسوخ تھا بلکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت بھی ان کا بہت احترام کرتی تھی۔ لہٰذا مولانا سمیع الحق پاکستان کے لئے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں تک رسائی کا ایک لنک تھے۔ مولانا سمیع الحق کو قتل کر کے یہ بااثر لنک ختم کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق مولانا نے کبھی بھی اپنے طور پر ان معاملات کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کی۔ تاہم جب بھی ان سے قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی تو اس سے انہوں نے انکار نہیں کیا۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے دور حکومت میں جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا تو اس بات چیت پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو آمادہ کرنے میں مولانا سمیع الحق کا بھی بڑا رول تھا۔ تاہم انہوں نے ٹی ٹی پی پر واضح کر دیا تھا کہ یہ مذاکرات پاکستانی آئین و قانون کے تحت ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ اور انہوں نے ریاست کے ڈھانچے کو ڈسٹرب کرنے والی کسی آواز کو کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ اسی طرح جب بھی کابل گورنمنٹ نے امن کے عمل کے لئے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان کی مدد سے بھی انکار نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل کابل حکومت نے کئی مرتبہ اپنے سفیر کی سربراہی میں وفد کو مولانا سمیع الحق کے پاس بھیجا۔ ذرائع کے مطابق تاہم افغانستان میں امن کی مخالف قوتیں انہیں پسند نہیں کرتی تھیں۔ جن میں امریکی سی آئی اے، افغان این ڈی ایس اور بھارتی ’’را‘‘ شامل ہیں۔ لہٰذا افغانستان میں امن لانے اور قابض فوج کو واپس بھیجنے کے حامی رہنمائوں کو فاٹا، کے پی کے، لاہور اور کراچی میں چُن چُن کر مارا گیا۔ مولانا سمیع الحق قیام امن کے لئے پل کا کردار ادا کرنے والے آخری بااثر رہنما باقی بچے تھے، اب انہیں بھی نشانہ بنا دیا گیا۔
معروف عسکری و سیاسی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے قتل کے سرے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ اس کے لئے موجودہ سنیاریو کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس وقت افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا عمل دوبارہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں قطر میں تیسری میٹنگ ہونے والی ہے۔ جبکہ روس نے بھی 9 نومبر کو اجلاس بلا لیا ہے۔ بظاہر امریکہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ بھی افغانستان میں قیام امن میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسی لئے قطر میں طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ تاہم اندر کی کہانی یہ ہے کہ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور بعض پرائیویٹ سیکورٹی کنٹریکٹرز فی الحال افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔ ان سب کے اپنے اپنے جیو اکنامک مفادات ہیں۔ مولانا سمیع الحق ان تینوں قوتوں کی خواہشات کے برعکس افغانستان میں قیام امن کے لئے متحرک رول ادا کر رہے تھے۔ اور اس سلسلے میں افغان طالبان سے رابطے میں تھے۔ تاہم ان کا یہ رول افغانستان میں قیام امن کے مخالفین کو پسند نہیں آ رہا تھا۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کے بقول دوسری جانب جنرل عبدالرازق کی ہلاکت نہ صرف کابل حکومت بلکہ امریکہ کے لئے بھی بڑے صدمے کا سبب ہے۔ کیونکہ وہ پاکستان کے خلاف ان دونوں کا ’’قیمتی اثاثہ‘‘ تھا۔ جنرل عبدالرازق کی ہلاکت کا الزام کابل حکومت نے پاکستان پر لگایا ہے۔ لہٰذا اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مولانا سمیع الحق کو نشانہ بنا کر جنرل عبدالرزاق کا بدلہ چکانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے حامد کرزئی کے بھائی ولی کرزئی کے قتل پر بھی کابل حکومت نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ اور اس کا بدلہ لینے کے لئے بلوچستان میں دہشت گردی کے کئی حملے کرائے۔ آصف ہارون راجہ کے مطابق ملک دشمن ایجنسیاں اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے عموماً آسان ہدف ڈھونڈتی ہیں، جو انہیں مولانا سمیع الحق کی صورت میں مل گیا۔ کیونکہ مولانا سمیع الحق کا طرز زندگی سادہ تھا اور وہ دوسرے رہنمائوں کے برعکس اپنی سیکورٹی پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ ٭
٭٭٭٭٭