قسط نمبر49
سید ارتضی علی کرمانی
رب کو پانے کی باتیں:
ذوالنون مصریؒ سے روایت ہے۔ فرمایا کہ حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کی طرف وحی کی کہ اے موسٰی! اس پرندہ کی مانند زندگی بسر کرو جو تنہا رہتا ہے، درخت پر سے اپنی روزی کھاتا ہے اور خالص پانی یا نہر کا پانی پیتا ہے اور جب رات ہو جاتی ہے تو کسی غار میں پناہ گزیں ہوتا ہے، کیوں کہ اسے مجھ سے انس اور میرے نافرمانوں سے نفرت ہے۔
اے موسیٰ! میں نے اپنے اوپر قسم کھائی ہے کہ کسی مدعی کا عمل پورا نہ ہونے دوں گا اور جو غیر سے امید رکھتا ہے اس کی امید منقطع کروں گا، جو میرے غیر سے انس کرتا ہے اس کو وحشت میں ڈالوں گا، جو غیر سے محبت کرے اس سے اعراض کروں گا۔ اے موسیٰ! میرے بعض بندے ہیں کہ اگر وہ مجھ سے سرگوشی کرتے ہیں تو میں کان لگا کر سنتا ہوں، اگر پکارتے ہیں تو ان کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، اگر میری طرف آتے ہیں تو میں ان کو اپنے قریب کرتا ہوں اور میرا قرب ڈھونڈتے ہیں تو مواصلات عطا کرتا ہوں اور ان کی کفایت کرتا ہوں، اگر وہ مجھے سر پرست بناتے ہیں تو میں ان کی سر پرستی قبول کرتا ہوں۔ اگر خالص محبت کرتے ہیں تو میں بھی ویسی ہی محبت کرتا ہوں، عمل کرتے ہیں تو جزا دیتا ہوں، میں ہی ان کے امور کا مدبر ہوں اور ان کے قلوب کا نگہبان ہوں اور ان کے احوال کا متولی ہوں، میں نے ان کی دلوں کی تسکیں صرف اپنے ہی ذکر سے کی ہے۔ اسی سے ان کی بیماریوں کی شفا ہے اور ان کے دلوں میں روشنی ہے۔ میرے سوا کسی سے انس نہیں پکڑتے اور میرے پاس ہی اپنے دل کی منزل بناتے ہیں اور ان کو چین بھی نہیں آتا سوائے میرے۔ خدایا! تو ہم کو بھی ان کے ساتھ ملا دے یا رب العالمین آمین! (نزہۃ البساتین)
بایزید بسطامیؒ کی کرامت:
حضرت ابو ترابؒ کا ایک ارادت مند اپنی ریاضت کے اعتبار سے بہت بلند تھا اور آپ اس سے یہ فرمایا کرتے کہ حضرت بایزید بسطامیؒ کی صحبت تیرے لیے زیادہ سود مند ہوگی، لیکن وہ عرض کرتا کہ میں تو بایزیدؒ کے خدا کو دن میں سو مرتبہ دیکھتا ہوں، ان سے بھلا مجھے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ حضرت ابوتراب نے فرمایا کہ ابھی تک تو اپنے پیمانے کے مطابق خدا کا دیدار کیا ہے، لیکن ان کی توجہ کے بعد ایسا دیدار ہوگا، جس طرح دیدار کا حق ہے۔ کیوں کہ حق تعالیٰ کا مختلف طریقوں سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، اسی لیے رب تعالی محشر میں ایک خاص تجلی تو حضرت صدیق اکبرؓ پر ڈالے گا اور ایک تجلی پوری مخلوق پر۔
یہ سننے کے بعد اس مرید کے قلب میں حضرت بایزیدؒ کا اشتیاق دیدار پیدا ہوا اور اپنے مرشد کے ہمراہ جس وقت آپ کے مکان پر پہنچا تو آپ کہیں سے پانی بھرنے گئے ہوئے تھے اور جب یہ دونوں ان کی تلاش میں چلے تو دیکھا کہ آپ ایک ہاتھ میں گھڑا اور ایک ہاتھ میں پوستین لٹکائے چلے آرہے ہیں۔ لیکن اس مرید پر آپ کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ لرزہ براندام ہوکر زمین پر گر پڑا اور جب حضرت ابوترابؒ نے کہا کہ آپ نے تو ایک ہی نظر میںکام ختم کر دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے اندر کشف کا ایک خاص مقام باقی رہ گیا ہے، جو اس وقت اس کو حاصل ہوا، لیکن وہ اسے برداشت نہ کرسکا۔ جس طرح مصر کی عورتیں حسن یوسفؑ کی تاب نہ لاکر اپنی انگلیاں تراش بیٹھی تھیں۔
صداقت زبان کا واقعہ:
حضرت مالک بن دینارؒ ایک مرتبہ شدید بیماری کے بعد جب صحت یاب ہوئے تو کسی ضرورت کے تحت انتہائی مشکل سے گرتے پڑتے بازار تشریف لے گئے۔ حسن اتفاق سے اس وقت سامنے سے بادشاہ سلامت کی سواری آرہی تھی، سواری کو راستہ دلوانے کیلئے پہریداروں نے لوگوں کو ادھر ادھر ہٹانے کے لیے ایک شور بلند کیا۔ حضرت مالک بن دینارؒ اس قدر کمزوری محسوس کررہے تھے کہ انہیں راستے سے ہٹنے میں تھوڑی سی تاخیر ہوگئی۔
چنانچہ ایک پہریدار نے آپؒ کو اس زور سے کوڑا مارا کہ تکلیف کی حالت میں آپ کے منہ سے اس پہریدار کے بارے میں یہ کلمہ نکل گیا کہ خدا کرے کہ تیرے ہاتھ کٹوا دیئے جائیں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ چند روز بعد کسی جرم کی پاداش میں اس پہریدار کے ہاتھ کٹوادیئے گئے، تاہم آپ کو اس کی یہ حالت دیکھ کر انتہائی قلق ہوا اور آپ نے دل میں کہا کہ کاش کرب کی حالت میں میرے منہ سے پہریدار کے بارے میں برا کلمہ نہ نکلا ہوتا۔ (خزینۃ الاصفیا جلد 5 ص 21)
ترک دنیا:
حضرت مالک بن دینارؒ دنیاداری سے ہمیشہ دور رہے تھے۔ یہاں کی رنگینیوں اور دلکشیوں کو دیکھ کر مالک بن دینارؒ پر ایک قسم کا خوف طاری ہوجایا کرتا تھا۔ منقول ہے کہ بصرہ میں کوئی امیر آدمی فوت ہوگیا اور اس کی وسیع جائیداد اور مال و دولت کی وارث اس کی اکلوتی لڑکی ٹھہری، جو کہ انتہائی خوبصورت اور قیامت خیز شخصیت کی مالک تھی۔ ایک دن اس لڑکی نے حضرت ثاقب نبانیؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا: وہ نکاح کرنا چاہتی ہے۔
حضرت ثاقب نبانی نے پوچھا کہ تم کس سے نکاح کرنے کی آرزومند ہو، اس پر لڑکی نے جواب دیا، میری خواہش ہے کہ حضرت مالک بن دینار سے میرا نکاح ہوجائے، کیوں کہ وہ پرہیزگار، دین دار اور ذکر الٰہی میں مصروف رہنے والے انسان ہیں۔ میں ان سے اس لیے شادی کرنا چاہتی ہوں، تاکہ دینی کاموں میں وہ میری معاونت کرسکیں۔
چنانچہ حضرت ثاقب نبانیؒ نے اس لڑکی کا پیغام حضرت مالک بن دینارؒ تک پہنچا دیا۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ میں تو دنیا کو طلاق دے چکا ہوں اور چونکہ عورت کا شمار بھی دنیا میں ہوتا ہے۔ اس لیے طلاق شدہ عورت سے نکاح جائز نہیں ہے۔ (مراۃ الاسرار جلد اول ص 231)
(جاری ہے)