موت بھی خدا کی رحمت ہے

دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں، جس سے انسان کو فائدہ نہ پہنچتا ہو۔ ارشاد خداوندی ہے:
ترجمہ: خدا وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب۔ (پ 1 البقرۃ آیت 29)
جیسا کہ کتاب ہٰذا میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں، جس سے انسان کو کسی نہ کسی حیثیت سے بلاواسطہ یا بالواسطہ فائدہ نہ پہنچتا ہو۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ انسان کو ان سے فائدہ پہنچتا ہے، مگر اس کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ صاحب معارف القرآن مذکورہ آیت کے تحت رقمطراز ہیں کہ جو چیزیں انسان کیلئے مضر سمجھی جاتی ہیں، جیسے زہریلی اشیائ، زہریلے جانور جیسے سانپ وغیرہ (جس کا ذکر آگے کیا جائے گا) غور کریں تو وہ بھی کسی نہ کسی طرح انسان کے لئے نفع بخش بھی ہوتی ہیں۔ جو چیزیں انسان کیلئے ایک طرح سے حرام ہیں، دوسری کسی طرح سے ان کا نفع بھی انسان کو پہنچتا ہے۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
صاحب معالم العرفان جلد 1 ص 142 پر لکھتے ہیں بعض اوقات زہریلے جانوروں کا زہر بھی تریاق (زہر کی دوائی) کا کام کرتا ہے۔ کسی موسم میں انسان مکھیوں سے تنگ آجاتا ہے، مگر یہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔ یہ غلاظت کے ڈھیر جو بہت سی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں انہیں مکھیاں ہی چاٹ جاتی ہیں۔ یہ تو انسان پر احسان کرتی ہیں، غلاظت کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں۔ اسی طرح حق تعالیٰ نے موت کو پیدا فرمایا ہے اور یہ ایک بڑی خطرناک چیز ہے، مگر اس میں بھی انسان کیلئے عبرت کا سامان موجود ہے، یہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔
حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ اس کی وضاحت ایک چھوٹے سے واقعہ کے ذریعے فرماتے ہیں:
ایک بادشاہ اور وزیر ایک دفعہ اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بادشاہ کہنے لگا:
کاش کہ اگر ایں موت نہ بودے۔ چہ خوش بودے یعنی اگر موت نہ ہوتی تو یہ سلطنت تم تک کیسے پہنچتی۔ یہ موت ہی ہے جس کے ذریعے یہ بادشاہت آپ تک پہنچی ہے، ورنہ تمہارے آباؤ اجداد تک محدود رہتی آگے، نہ چلتی۔
صاحب بیان القرآن رقمطراز میں کہ گھر میں اپنے وقت پر کسی کی موت آجانا بھی حق تعالیٰ کی رحمت ہے، اس لئے آج کوئی نہیں چاہتا کہ اس کی والدہ اور باپ کا انتقال ہو، ہر ایک چاہتا ہے کہ میرے والدین ابھی کچھ دن اور زندہ رہیں تو والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ بھی زندہ رہیں، اسی طرح آگے یہی سلسلہ چلتا رہے۔ اگر سب کی آرزو حق تعالیٰ پوری کر دیتا تو نتیجہ یہ ہوتا کہ ایک گھر میں زیادہ نہیں فرض کریں پانچ نانے اور پانچ نانیاں لیٹی ہوں اور پانچ دادے اور پانچ دادیاں لیٹی ہوں، کوئی پانچ سو برس کا ہوگا، کوئی تین سو برس کا، کوئی دوسو برسوں کی چارپائیوں پر پیشاب ہورہے ہیں۔ کیونکہ وہ اتنے ضعیف و کمزور ہوچکے ہوں گے کہ ان سے چلنے پھرنے اٹھنے کی سکت نہ ہوگی اور نہ بولنے کی تو گھر میں نوجوان اپنے اہل وعیال کیلئے باہر نکل کر کوئی کام نہ کرسکے گا۔ ہر جگہ 5 مرلہ کیا کئی کنال زمین درکار ہوگی۔ ان کو کوئی کیسے سنبھال سکتا ہے، پھر تو تنگ آکر دعائیں مانگی جائیں گی کہ خدایا یہ جلدی سے رخصت ہوں۔ لہٰذا وقت پر موت بھی حق تعالیٰ کی رحمت ہے کہ لوگوں کو اپنے وقت پر پردیس سے یعنی دار فانی سے وطن اصلی کی طرف منتقل فرماتے رہتے ہیں۔
حضرت مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ جب بال سفید ہوجائیں تو ہوشیار ہوجاؤ کہ تمہاری زندگی کی کھیتی پک چکی ہے۔ اب کسی وقت بھی حضرت عزرائیلؑ درانتی لے کر آئیں گے اور تمہاری زندگی کی کھیتی کاٹ لیں گے۔ آمد برسر مطلب۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment