حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کا فرمان ہے کہ نادان ڈھول کی مانندہوتا ہے، آواز اس کی بلند ہوتی ہے، مگر اندر سے ڈھول کی طرح کھوکھلا اور خالی ہوتا ہے۔ جاہلوں کا طریقہ ہے کہ جب ان کی دلیل مقابل کے آگے نہیں چلتی تو وہ لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے تو اپنے بچوں کو عمدہ اخلاق سکھائو، جو شخص بچپن میں تمیز نہیں سیکھ سکا، وہ بڑے ہو کر بھی نہیں سیکھ سکے گا۔ (اقوال مشاہیر)
نورانی چہرے
حضرت سیدنا حسن بصری علیہ الرحمۃ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت! تہجد گزار لوگوں کے چہرے منور اور دوسرے لوگوں سے زیادہ خوبصورت کیوں ہوتے ہیں؟ آپؒ نے فرمایا: ’’اس لیے کہ وہ راتوں کو خدائے عزوجل کے لئے تنہائی اختیار کرتے ہیں، تو رب تعالیٰ بھی انہیں اپنے نور کا لباس کا پہنا دیتا ہے، جس کے باعث ان کے چہرے منور ہو کر دوسرے لوگوں سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔‘‘ (بحوالہ: آنسوئوں کا دریا، صفحہ:121)
اپنی امیدیں مختصر کریں
امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا:
’’انسان کا بنیادی فرض یہ ہے کہ اپنے نفس کو بے نیازی کی تربیت دے اور طمع کا شکار نہ ہو۔ اس کے بعد کوئی پریشانی آجائے تو صبر کو اپنا شعار بنائے اور ہر ایک سے فریاد نہ کرے کہ اس کی نگاہ میں ذلیل ہو جائے اور جب بولنے کا وقت آئے تو فکر کو زبان پر حاکم بنائے اور زبان کو نفس کا حاکم نہ بنا دے کہ جو چاہے کہنا شروع کر دے۔‘‘
حضرت سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ سے فرمایا: ’’اے امیر المومنین! اگر آپ کو یہ بات پسند ہے کہ کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ سے جا ملیں تو آپ اپنی امیدیں مختصر کریں اور کھانا کھائیں، لیکن پیٹ نہ بھریں اور لنگی بھی چھوٹی پہنیں، کرتے پر پیوند لگائیں اور اپنے ہاتھ سے جوتی گانٹھیں۔ اس طرح کریں گے تو ان دونوں سے جا ملیں گے۔ اللہ متقیوں کے عمل کو قبول فرماتے ہیں۔‘‘(حیاۃ الصحابہؓ حصہ سوم)
پلے باندھنے کی آٹھ باتیں
جب ابن ملجم ملعون نے حضرت علی المرتضیٰ ؓ کو خنجر مارا تو حضرت حسنؓ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت حسنؓ رو رہے تھے، حضرت علیؓ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! کیوں رو رہے ہو؟ عرض کیا: میں کیوں نہ رئوں، جبکہ آج آپ کا آخرت کا پہلا دن اور دنیا کا آخری دن ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: چار اور چار (کل آٹھ) چیزو ں کو پلے باندھ لو۔ ان آٹھ چیزوں کو تم اختیار کرو گے تو پھر تمہارا کوئی عمل تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ حضرت حسنؓ نے عرض کیا: ابا جان! وہ چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: سب سے بڑی مالداری عقلمندی ہے، یعنی مال سے بھی زیادہ کام آنے والی چیز عقل اور سمجھ ہے اور سب سے بڑی فقیری حماقت اور بے وقوفی ہے۔ سب سے زیادہ وحشت کی چیز اور سب سے بڑی تنہائی عُجب اور خود پسندی ہے اور سب سے زیادہ بڑائی اچھے اخلاق ہیں۔ حضرت حسنؓ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اباجان! یہ چار چیزیں تو ہوگئیں، مجھے باقی چار چیزیں بھی بتا دیں۔ فرمایا: بیوقوف کی دوستی سے بچنا، کیونکہ وہ فائدہ پہنچاتے پہنچاتے تمہارا نقصان کر دے گا اور جھوٹے کی دوستی سے بچنا، کیونکہ جو تم سے دور ہے، یعنی تمہارا دشمن ہے، اسے تمہارے قریب کر دے گا اور جو تمہارے قریب ہے، یعنی تمہارا دوست ہے، اسے تم سے دور کر دے گا (یا وہ دور والی چیز کو نزدیک اور نزدیک والی چیز کو دور بنائے گا اور تمہارا نقصان کر دے گا) اور کنجوس کی دوستی سے بھی بچنا، کیونکہ جب تمہیں اس کی سخت ضرورت ہو گی، وہ اس وقت تم سے دور ہو جائے گا اور بدکار کی دوستی سے بچنا، کیونکہ وہ تمہیں معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا۔ (حیاۃ الصحابہؓ حصہ سوم)