قسط نمبر: 250
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
قلعے میں مہابلی کے براہ راست متوسلین، یعنی شاہزادوں، شاہزادیوں، سلاطین زادوں، سلاطین زادیوں کی تعداد دو ہزار سے متجاوز تھی۔ ان سب کا نان نفقہ علیٰ حسب مراتب خزانہ شاہی سے ماہ بماہ ملتا تھا۔ وزرا، عہدہ داران، متصدیان، سپاہیان، اور موٹا کام کرنے والے اہلکاران وغیرہ کی تنخواہیں الگ تھیں۔ تیوہار اور جشن کے موقعوں پر، شادی، عقیقہ، ختنہ، پیدائش، موت، سفر کو جانے یا سفر سے مراجعت کے وقتوں پر صرفہ، صرفۂ معتاد پر مستزاد تھا۔ جیساکہ پہلے بیان ہوا ہے، شاہجہاں کے وقت سے بادشاہ کو ’’پیرو مرشد‘‘ کہنے کی رسم شروع ہوئی، لیکن عالم گیرثانی عرش منزل کے وقتوں سے خود بادشاہ کو پیری مریدی اور فقیر فقرا میں اٹھنے بیٹھنے کا ذوق پیدا ہوگیا تھا، لہٰذا بادشاہ کو عموماً ’’ظل الٰہی‘‘ اور ’’پیرو مرشد‘‘ دونوں طرح خطاب کیا جانے لگا تھا۔ اور اب حضور انور بہادر شاہ ظفر چونکہ خود صوفی مشرب تھے اور قبلہ کالے صاحب سے سند خلافت اور اجازت لوگوں کو مرید کرنے اور ان کو بیعت کرنے کی حاصل کرچکے تھے، اس لئے آپ کے وظائف یومیہ میں ایک اہم وظیفہ مریدوں کو شرف ملاقات بخشنا، ان کو توجہ دینا، ان کے روحانی مسائل کا حل تجویز کرنا، اور نئے مرید بنانا تھا۔ پرانے مریدوں سے آپ معمولی نذر کے سوا، جو عام طور پر دو روپئے ہوتی تھی، کچھ قبول نہ کرتے تھے۔ اس کے بر خلاف، ہر نئے مرید کو وہ اپنی طرف سے دو روپئے عطا فرماتے تھے۔
ان تمام مدوں میں جو رقم خرچ ہوتی تھی، وہ ظل سبحانی کی ظاہری آمدنی سے یقیناً متجاوز ہوتی ہوگی۔ اس پر پہاڑ جیسے قلعے کی صفائی ستھرائی، روشنی، معمولی مرمت، قلعی چونا، یہ سب خرچے الگ تھے۔ مانا کہ قلعۂ معلیٰ کی حالت جگہ جگہ سے سقیم ہوگئی تھی، نہریں سب رواں نہ تھیں، فوارے کئی خشک ہوچکے تھے، ساون بھادوں کا چبوتراور نہریں اور فوارے گرد سے اٹ چکے تھے۔ روہیلہ گردی، پھر جاٹ گردی اور مر اٹھا گردی میں دیواروں اور چھتوں اور برجوں کا سونا چاندی بہت کچھ اتر گیا تھا، منقش درو دیوار کے قیمتی پتھر اکثر اکھاڑ لئے گئے تھے، اور ان نقصانات کی تلافی نہ پہلے ہوسکی تھی اور نہ اب ہی اس کا امکان تھا، لیکن مجموعی حیثیت سے قلعہ اب بھی قلعہ معلیٰ کہلانے کے لائق تھا۔ باغ و خیاباں سب شاداب اور موسم کے پھولوں اور پھلوں سے تو انگر تھے، دیوان عام، دیوان خاص، حمام، تسبیح خانہ، موتی مسجد، یہ سب عمارات اب بھی چمکتی دمکتی نظر آتی تھیں۔
لیکن یہ سب قائم رکھنے کے لئے روپیہ کہاں سے آتا تھا، یہ راز اب تک پوری طرح حل نہیں ہوسکا ہے۔ فردوس منزل حضرت شاہ عالم بہادر شاہ ثانی نے اپنے حسن انتظام سے بہت خزانہ جمع کرلیا تھا جو حضرت ابو النصر معین الدین اکبر شاہ ثانی عرش آرام گاہ کے زمانے میں خرچ ہوگیا۔ ان کے عہد میں، اور پھر حضرت ابو ظفر کے عہد میں حویلی مبارک کے ملازمین و متوسلین کی تعداد میں معتد بہ اضافہ بھی ہوا تھا۔ نوبت بایں جارسید کہ یہ بھی کہا جانے لگا کہ ان ستر شہزادوں شاہزادیوں کے سوا، جو حضرت عرش آرام گاہ اور اعلیٰ حضرت ظلم سبحانی ابو ظفر کے اخلاف براہ راست ہیں، بقیہ سب کو قلعے کے باہر کردیا جائے اور ظل سبحانی ان کی کفالت سے دستبردار ہوجائیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہ ہوسکا تھا۔ تو حضرت ابو ظفر سراج الدین بہادر کے خرچ کس طرح پورے ہوتے تھے؟ انگریز نے ان کا وظیفہ ایک لاکھ ماہانہ مقرر کیا تھا جس میں بار بار کی درخواست و گزارش کے باوجود بادشاہ سلامت کی حسب دلخواہ اضافہ نہ ہوا۔
آمدنی کی ایک صورت یہ تھی کہ عیدین، نو روز، اور بادشاہ کی سالگرہ کے مواقع پر انگریز صاحب گورنر جنرل بہادر اور صاحب کمانڈر ان چیف بہادر کی طرف سے نذریں پیش ہوتی تھیں۔ لیکن یہ قاعدہ حضرت ابو ظفر کی تخت نشینی کے تھوڑے ہی دن بعد منسوخ ہوا۔ وجہ اس کی یہ ہوئی کہ اپنی تخت نشینی کے وقت حضرت ظل سبحانی نے اپنے لئے ایک گنگا جمنی ہشت پہلو تخت تیار کرایا تھا (اسے بعض لوگوں نے تخت طاؤس لکھا ہے لیکن دراصل اس کا نام تخت ہما تھا)۔ تاجپوشی کے وقت شاہ جمجاہ تو سریر آراے و سادہ ہوئے لیکن صاحب گورنر جنرل بہادر کو تشریف رکھنے کے لئے کرسی نہیں پیش کی گئی۔ اس بات پر آشفتہ ہوکر انگریز بہادر نے بادشاہ کے لئے تخت ہما پر متمکن ہونا ممنوع قرار دیا۔ اور جب تخت پر جلوہ افروزی بند ہوئی تو نذریں بھی بند ہوئیں۔ اس طرح شاہی آمدنی کا ایک معقول ذریعہ ہاتھ سے جاتا رہا۔
کئی سال کی تگ و دو اور کاغذی گھوڑوں کی آمد و رفت کے بعد انگریز بہادر نے دسمبر 1844ء میں حکم جاری کیا کہ شاہ جمجاہ کے وظیفے میں مبلغ تین لاکھ سالانہ مزید کیا جاتا ہے۔ لیکن اس حکم کی بھی تعمیل ہوتے ہوتے اپریل 1849ء ہوگیا اور اغلب یہ ہے کہ دسمبر 1844ء تا مارچ 1849ء تک کا اضافہ شدہ بقایا بھی بادشاہ کو نہیں دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 1846ء میں صرف شہر دہلی کی چنگی سے انگریز کو کم و بیش سینتالیس لاکھ کی آمدنی ہوئی تھی۔ لیکن صاحبان عالی شان کی تنگ چشمی اس رقم سے ایک دانگ بھی قلعہ شاہی میں نہ پہنچ سکتا تھا۔ زمینات و باغات خالصہ سے بادشاہ سلامت کو پچیس ہزار روپے ماہانہ کی مزید آمدنی تھی۔ (مولوی ذکاء اللہ کا تخمینہ اس سے بھی کم کا ہے)۔ لیکن ظاہر ہے کہ سوا لاکھ ماہانہ ہو یا اس سے کچھ زیادہ، شاہی اخراجات کے لئے یہ رقم کہیں سے بھی کفایت نہ کرتی تھی۔ (جاری ہے