نو کنڈی اسٹیل پرجیکٹ کا باب بند ہوگیا

73 ویں و آخری قسط
معروف ماہر ارضیات شمس الحسن فاروقی مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) میں چیف جیولوجسٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ افغانستان اور ایران کے تفصیلی ارضیاتی دورے کئے۔ اس کے علاوہ خطے کے معدنی دخائر پر متعدد تحقیقی مقالے بھی تحریر کر چکے ہیں۔ شمس الحسن فاروقی کی کتاب ’’رودادِ ایران‘‘ بلاشبہ تحقیق و مشاہدات پر مبنی ایسی تصنیف ہے جو ارضیات کے طلبہ سمیت ذوق مطالعہ رکھنے والے ہر فرد کو پسند آئے گی۔ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کیلئے اس کتاب کے اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں۔
نوکنڈی اسٹیل مل پروجیکٹ کی تاریخ کے ایک خاصے اہم باب کا تذکرہ تو رہ ہی گیا۔ جس زمانے کا یہ قصہ ہے اس زمانے میں جناب میاں محمد نواز شریف صاحب سعودی عرب کے شہر جدہ میں واقع اور سعودی شاہ صاحب کے عنایت کردہ ’’سرور محل‘‘ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ میرے کچھ بہی خواہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ نواز شریف اور ان کا خاندان بنیادی طور پر اسٹیل انڈسٹری کے لوگ ہیں، یہ اس صنعت کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں اور انہیں اسٹیل کے پروجیکٹس کو پروموٹ کرنا بھی آتا ہے اور لگانا بھی آتا ہے۔ نیز اس انڈسٹری کے بین الاقوامی مالی سیکٹر میں ان کی ایک اچھی ساکھ ہے۔ اگر اسٹیل کے کسی پروجیکٹ میں جان ہو تو اس کے لئے سرمائے کا بندوبست کرنا ان کے لئے موجودہ مشکل حالات میں بھی شاید کوئی مسئلہ نہ ہو۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ میں نوکنڈی اسٹیل مل پروجیکٹ کی پری فیزی بلیٹی رپورٹ (Prefeasibility report) کی ایک کاپی ان کو معہ ایک مناسب تعارفی خط کے اس درخواست کے ساتھ روانہ کر دوں کہ اگر وہ اس قومی پروجیکٹ کو ایک جاندار تجارتی پروجیکٹ سمجھتے ہوں تو اس کو پروموٹ کرنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ مجھے یہ مشورہ بہت اچھا لگا اور میں نے 6 فروری 2003ء کو میاں محمد نواز شریف صاحب کو اپنی کمپنی ’تکنیک مشرق‘ کی تیار کردہ نوکنڈی اسٹیل مل کی پری فیزی بلیٹی رپورٹ کی ایک کاپی مع اپنی کمپنی کے تین دیگر پروجیکٹس کے کوائف خاصے تفصیلی فارورڈنگ لیٹر کے ساتھ روانہ کر دی۔ کافی عرصے تک میں حقیر اور میرے ساتھی کہ جن کو میاں صاحب سے بہت امیدیں وابستہ تھیں، ہر آہٹ کو میاں صاحب کے قاصد کی آہٹ سمجھتے رہے۔ مگر افسوس کہ کوئی مدلل جواب تو کجا میرے حقیر خط اور منسلکہ دستاویزات وغیرہ کی ان تک پہنچنے کی رسید بھی نہ آئی۔ اس طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کے نوکنڈی اسٹیل مل پروجیکٹ کی ممکنہ پروموشن کا یہ دروازہ بھی بند ہوا۔
قارئین کرام کی دلچسپی کے لئے ذیل میں اس فارورڈنگ لیٹر مورخہ 4 فروری 2003ء کی نقل پیش خدمت ہے، جو میں نے جناب نواز شریف صاحب کو لکھا تھا اور بذریعہ رجسٹرڈ پوسٹ پارسل، پوسٹ مال F-7 مرکز اسلام آباد سے 6 فروری 2003ء کو روانہ کیا۔
’’اسلام آباد، 4 فروری، 2003ء
میاں محمد نواز شریف صاحب، (سابق وزیراعظم پاکستان)،
سرور پیلس، جدہ، سعودی عرب۔
محترمی جناب نواز شریف صاحب!
السلام علیکم۔
راقم الحروف ارضیات کا طالب علم ہے اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز (1957) ہی سے مائننگ و میٹلرجیکل صنعتوں سے وابستہ رہا ہے۔ مجوزہ کالا باغ اسٹیل مل کے خام مواد پر بنیادی ارضیاتی رپورٹیں مجھ حقیر ہی کی لکھی ہوئی ہیں۔ میں نے جرمنی کی کوئلے کی کانوں، خام لوہے (iron ore) کی کانوں اور اسٹیل ملوں میں بھی تقریباً ایک سال بسلسلہ جرمن تکنیکی تعاون پروگرام (1960-61) ٹریننگ حاصل کی ہے۔ پبلک سیکٹر کی سروس کو میں نے 1990ء میں خیر باد کہہ کر اپنے دیگر پروفیشنل ساتھیوں کے ساتھ مل کر موجودہ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ سرکاری سیکٹر میں آخری عہدہ چیف جیولوجسٹ، پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن، تھا۔
آج کل یہ کمپنی اپنی خستہ حالی کے باوجود مندرجہ ذیل چار منصوبوں کو عملی شکل دینے میں کوشاں ہے۔
1۔ نوکنڈی (بلوچستان) میں وہیں کے خام لوہے پر منحصر ایک ملین ٹن اسٹیل سالانہ پیداواری گنجائش رکھنے والی مل کا قیام۔
2۔ کالا باغ میں پیٹرول و گیس کی دریافت کے لئے کم از کم ایک عدد کنویں کی ڈرلنگ۔
3۔ گلگت میں copper- gold- platinum کے ذخائر پر مائن و مل کا قیام (یہ تقریباً ایک بلین ڈالر کا پروجیکٹ ہوگا)
4۔ ڈنڈوت و مکراچ (ضلع چکوال) میں بڑی اور میکنائزڈ نمک کی کان اور اس کے ساتھ نمک کے ایکسپورٹ اورینٹڈ کمپلیکس کا قیام۔
نوکنڈی اور گلگت کے منصوبوں کی تفاصیل ہماری ویب سائٹ www.mindbuilt.com/etl پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ نوکنڈی اسٹیل مل پروجیکٹ کی Pre-Feasibility Report کی ایک کاپی اور ایک عدد سی ڈی (جس میں دونوں پروجیکٹ کور کئے گئے ہیں) ان سطور کے ساتھ بھی منسلک کی جارہی ہیں۔
کیونکہ اسٹیل کی صنعت کا آپ اور آپ کے خاندان کے افراد کو بہت وسیع تجربہ ہے اور باوجود انتہائی تلخ تجربات کے ابھی آپ پاکستان کی مٹی سے ناامید نہیں ہوئے ہیں، اس لئے میں حقیر آپ سے درخواست کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ برائے مہربانی اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت نکال کر ان کاغذات کا بغور مطالعہ کیجئے اور اگر آپ اس سلسلے میں ہم لوگوں کی approach اور conclusions سے متفق ہوں تو پھر اس کام میں اس ملک کے استحکام اور صنعتی ترقی کی خاطر ہمارے مددگار اور راہنما بن جایئے۔
اگر آپ فراہم کردہ معلومات کے سلسلے میں کچھ سوالات رکھتے ہوں یا مزید معلومات یا clarification چاہتے ہوں تو بذریعہ ٹیلی فون، ڈاک یا e-mail ایسا کرسکتے ہیں۔ میرا ای میل کا پتہ یہ ہے۔ etl@mindbuilt.comمیری خواہش تھی کہ میں ذاتی طور پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر تمام معلومات مختلف presentations کی شکل میں فراہم کرتا، مگر موجودہ حالات میں میری اور میری کمپنی کی مالی حیثیت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ لہٰذا ڈاک اور ویب سائٹ اور سی ڈی کے ذریعوں پر ہی اکتفا کرنا پڑرہا ہے۔ ویسے یہ ذریعے بھی سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کافی حد تک کافی ہیں۔
نوکنڈی میں آپ کے ایک مداح اور دیرینہ نائب مسٹر صادق سنجرانی بلوچ نے بھی ہماری کمپنی کا ممبر بننے اور نوکنڈی اسٹیل مل کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے مقدور بھر کوشش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ اس سلسلے میں آپ کے پاس حاضر ہونے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب بھی اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں قابل قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ مگر یہ کام انہوں نے صرف جذبہ حب الوطنی کے تحت کیا ہے۔ ان کا اپنا کوئی مالی مفاد شامل نہیں۔ ان کی ان ہی کوششوں کے نتیجے میں خصوصی طور پر اور کمپنی کے دیگر ممبران کی کوششوں کے نتیجے میں عمومی طور پر اللہ تعالیٰ نے بلوچستان کے لوگوں کی اور خصوصی طور پر وہاں کے متعلقہ سرکاری عہدہ داروں کی اکثریت کو اس پروجیکٹ کو قائم کرنے میں ہمارا ممدو معاون بنادیا ہے۔ اور بفضل تعالیٰ کمپنی کو وہاں سے ہر قسم کا تعاون مل رہا ہے۔ مگر اصل مسئلہ 36 ارب روپے کی فراہمی کا ہے۔ گو کہ بلاسٹ فرنیسس و دیگر بھاری مشینری و پلانٹس کے ملک ہی میں بنوائے جانے کی صورت میں (جوکہ موجودہ حالات میں ممکن ہے) اور مل کو مختلف حصوں میں تقسیم کردینے (جیساکہ کئی ممالک میں ہورہا ہے) اور ان حصوں کو مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کو ایگریمنٹس کے تحت دے دینے سے یہ رقم گھٹ کر کافی کم ہوجائی گی (تقریباً نصف)، مگر پھر بھی اس کم شدہ رقم کی فراہمی بھی بغیر دوست ممالک کے Investors کے تعاون کے ممکن نہیں نظر آتی۔
اس منصوبے کا محل وقوع، ارضیاتی، تجارتی اور دفاعی نقط ہائے نظر سے اتنا موزوں ہے کہ اس کا قیام انشاء اللہ تعالیٰ پوری ملت اسلامیہ کے لئے بہت اہم اور سود مند ثابت ہوگا۔ مجھے امید راسخ ہے کہ زیر نظر رپورٹ کا مطالعہ کرنے اور منسلکہ نقشوں اور گوشواروں کا بغور معائنہ کرنے کے بعد آپ مجھ حقیر کی اس رائے سے اتفاق فرمائیں گے۔
سب سے پہلا مرحلہ البتہ کسی معروف اور متعلقہ فرم یا ایجنسی سے اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کی رپورٹ (feasibility report) بنوائے جانے کا ہے۔ گو کہ ہم لوگوں نے جو pre- feasibility report تیار کی ہے اس میں head of information تمام وہی ہیں جوکہ کالا باغ کی اسٹیل مل کی قابل عمل ہونے کی رپورٹ میں جرمنوں نے استعمال کئے ہیں۔ تاہم کیونکہ ہم لوگ steel mills کے ماہرین نہیں شمار کئے جاتے، اس لئے اسے کسی متعلقہ ایجنسی سے ویٹ کرایا جائے یا پھر مکمل feasibility report بنوائی جائے۔ اس رپورٹ میں مائننگ پروجیکٹس کی feasibility report بھی شامل ہوگی۔
دوسرا مسئلہ ایران کے صوبہ کرمان سے کوکنگ کوئلے (coking coal) کی کان کنی کی حکومت ایران سے اجازت حاصل کرنے اور اس کو بلوچستان میں لاکر wash کرکے اس کا coke بنانے کا کام ہے۔ اس تمام کام میں انشاء اللہ تعالیٰ کوئی ناقابل حل ٹیکنیکل مسئلہ نہیں ہوگا۔ (میں نے ایران جاکر تمام حالات و ذخائر کا جائزہ لے لیا ہے)۔ مگر وقت سے پیشتر حکومت ایران کی رضامندی حاصل کرلینا اور تمام متعلقہ امور طے کرلینا نہایت ضروری ہے۔ کوکنگ کوئلہ ہمیں افغانستان سے بھی مل سکتا ہے (میں نے طالبان کے زمانے میں افغانستان جاکر وہاں کے معدنی ذخائر کا بھی تفصیلی جائزہ لے رکھا ہے) مگر وہاں سے اول تو فاصلہ کچھ زیادہ ہے، دوسرے سڑکوں کا برا حال ہے۔ تیسرے وہاں کے حالات ابھی تک کسی بڑے مائننگ کے پروجیکٹ کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ اور مستقبل قریب میں بھی سازگار ہوتے نظر نہیں آتے۔ مگر افغان آپشن آئندہ ضرور ہمارے کام آنے کی توقع ہے، نہ صرف کوئلے کے لئے بلکہ خام لوہے (iron ore) اور دیگر کئی دوسری اہم معدنیات کے لئے بھی۔
خام لوہے کے ذخائر کے مائننگ لیز (mining lease) کے حصول کے لئے کمپنی کی درخواست حکومت بلوچستان پروسیس کررہی ہے۔ اور اس سلسلے میں پاکستان اسٹیل مل کو ان کے پراسپیکٹنگ لائسنس (prospecting licence) کے ٹرمینیشن کے لئے شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا ہے کہ انہوں نے ذخائر کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے مگر 1985ء سے اب تک ان ذخائر پر کسی قسم کا کوئی ترقیاتی یا معلوماتی کام نہیں کیا ہے نہ ہی آئندہ کچھ کرنے کا ان کے پاس کوئی پلان ہے۔
میں ان سطور کے ہمراہ اپنی کمپنی کے articles of association اور کمپنی پروفائل کی نقول بھی روانہ کررہا ہوں تاکہ آپ اس کمپنی کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرسکیں۔ مگر کمپنی پروفائل کی جو شکل منسلکہ سی ڈی میں ہے وہ موجودہ اور صحیح تر ہے اور جو شکل کاغذ پر ہے وہ پرانی اور جزوی طور پر متروک ہے۔
علاوہ ازیں میں اپنے کالا بلاغ کے تیل کے پراسپیکٹ پر اپنے کام پر بعض مشہور اور تجربہ کار غیر ملکی ماہرین ارضیات کی آرا کی نقول بھی آپ کے مطالعے کے لئے منسلک کر رہا ہوں۔
سردست آپ کی خدمت میں یہی کچھ عرض کرنا تھا۔
آپ کے جواب کا منتظر
خیر اندیش
(شمس الحسن فاروقی)
جب مجھ حقیر کی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کی اور گورنر بلوچستان جناب جسٹس امیر الملک مینگل صاحب کی تمام تر کوششوں کے باوجود، بوجہ مخالفت جیولوجیکل سروے آف پاکستان، کوئٹہ تافتان میں پہاڑی نمک کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے ڈرلنگ کا بندوبست نہ ہوسکا تو پھر میری کمپنی تکنیک مشرق کے ممبران نے کہ جن میں کئی لوگ بشمول راقم الحروف نمک کی جیولوجی اور نمک کی کانکنی کا خاصا وسیع تجربہ رکھتے تھے، طے کیا کہ ’’تکنیک مشرق‘‘ تافتان کے متعلقہ رقبے کا ایکسپلوریشن لائسنس لے کر خود اپنے خرچ پر کنفرمیٹری ڈرلنگ کرے گی، بشرطیکہ بلوچستان کا محکمہ معدنیات نمک ثابت ہوجانے پر نمک کی کانکنی کے پٹے بلوچستان مائننگ رولز کے تحت کمپنی کے استحقاق کے مطابق اس کوگرانٹ کرے۔ جب محکمہ معدنیات بلوچستان کو ہماری پراسپیکٹنگ لائسنس کی درخواست پہنچی تو وہ بہت خوش ہوئے کہ اب ہمارے بلوچستان میں بھی پنجاب کی طرح نمک کی کان کنی شروع ہوجائی گی۔ مگر جب راقم الحروف نے کوئٹہ پہنچ کر ان کی توجہ کمپنی کی اس شرط کی طرف دلائی کہ نمک ثابت ہو جانے پر محکمہ معدنیات ترجیحی بنیاد پر کمپنی کو اس کا مانگا ہوا رقبہ بلوچستان کے معدنی رولز کے مطابق گرانٹ کرنے کا پابند ہوگا تو وہ صاحب فرمانے لگے کہ نمک ثابت ہوجانے پر ہم اس علاقے کو سو سو ایکڑ کے چھوٹے بلاکوں میں تقسیم کریں گے۔ آپ کے ساتھ یہ ترجیحی سلوک ہوگا کہ آپ کو آپ کی پسند کا بلاک الاٹ کردیا جائے گا۔ باقی بلاک دیگر مقامی درخواست و بندوں کو الاٹ کئے جائیں گے۔ اس پر میں نے ان سے عرض کیا کہ جناب ہمیں باؤلے کتے نے تو کاٹا نہیں ہے کہ اس پروجیکٹ پر اس حقیقت کے باوجود ہاتھ ڈالیں کہ علاقے میں نمک کی موجودگی کا خیال بھی ہم پیش کریں، سرفیس جیولوجی بھی اپنے خرچ پر کریں اور معلوماتی ڈرلنگ بھی اپنے خرچ پر ہم ہی کریں اور جب کانکنی کے پٹوں کے الاٹمنٹ کا وقت آئے تو ہمارے لئے خاص طریقہ کار وضع کیا جائے اور ہمارا استحقاق وہی رکھا جائے جو پاکستان کے ایک عام شہری کا ہو۔ آخر میں عرض کیا کہ آپ اپنا نمک جو ابھی ثابت بھی نہیں ہوا ہے، اپنے پاس ہی رکھیے۔ اس کے جتنے چھوٹے بلاک بنانا چاہیں بنایئے اور جنہیں چاہیں انہیں تقسیم کیجئے۔ اس واقعے کے بعد بلوچستان سے میری کمپنی نے اپنی ہاتھ کھینچ لئے اور وہاں کچھ نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان کے محکمہ معدنیات نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان کی معدنی دولت اگر کسی کو نکالنی ہو تو وہ ان کی ذاتی شرائط پر نکالے۔ بصورت دیگر اس معدنی دولت کے زیر زمیں پڑے رہنے سے ان کی صحت پر کوئی مضر اثرات نہیں پڑ رہے۔ اگر ان کی سوچ کا یہ عالم نہ ہوتا تو آج کل ریکوڈک کا پروجیکٹ دو لاکھ پچاس ہزار ٹن تانبا اور تقریباً پندرہ 15 ٹن سونا سالانہ پیدا کر رہا ہوتا۔ ہزاروں پاکستانیوں کو باعزت روزگار مل چکا ہوتا۔ بلوچستان اور گلگت و بلتستان میں بہت سے دیگر تانبا و سونے کے بڑے بڑے پروجیکٹ لگ چکے ہوتے اور پاکستان کے بہت سے مالی دلدر دور ہوچکے ہوتے۔ نیز نوکنڈی اسٹیل مل دس لاکھ ٹن سالانہ فولاد پیدا کر رہی ہوتی اور یہی نہیں شاید تافتان کا علاقہ روزانہ ہزاروں ٹن نمک اور نمک کے کیمیکلز بھی پیدا کر رہا ہوتا۔

Comments (0)
Add Comment