نجم الحسن عارف
تحریک لبیک اور اس سے الگ ہونے والے گروپ نے حکومت کے ساتھ الگ الگ معاہدہ کرلیا۔ لیکن باہم ایک دوسرے کے قریب آنے اور ختم نبوتؐ یا تحفظ ناموس رسالتؐ کیلئے متحد ہو کر چلنے کا کوئی امکان نہیں۔ یکم اکتوبر 2016ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والی ایک کانفرنس کے بعد سے اب تک تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کی الگ ہونے والے دھڑے کے سربراہ اور تحریک لبیک کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ پچھلے سال بھی دونوں دھڑوں نے ختم نبوت کے ایشو پر الگ الگ دھرنے دیئے اور حکومت کے ساتھ الگ الگ معاہدے کر کے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اب کی بار بھی لاہور کے دو مختلف مقامات پر دیئے گئے الگ دھرنوں کا انجام حکومت کے ساتھ الگ الگ معاہدوں کے نتیجے میں ہوا۔ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کے ترجمان آصف جلالی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کی ٹیم کے ارکان کے ساتھ ہفتے کی رات ہونے والے معاہدے اور تحریک لبیک کے قائدین کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں فرق صرف یہ ہے کہ انہیں اپنے کسی غیر محتاط بیان پر معافی اور معذرت کی تحریر لکھ کر نہیں دینا پڑی۔ جبکہ دوسروں کو یہ کرنا پڑا۔
دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی ترجمان پیر اعجاز اشرفی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی اتنی شاخیں بن چکی ہیں، وہ اکٹھی نہیں ہو سکی تو تحریک لبیک کا اکٹھا ہونا بھی آسان نہیں۔ ان کے بقول جماعتیں مفادات کی بنیاد پر بنتی ہیں اور نظریات کی بنیاد پر چلتی ہیں۔ جس کا نظریہ مضبوط ہوتا ہے، اس کے پاس اکثریت ہوتی ہے اور اسے ہی سواد اعظم تسلیم کیا جاتا ہے۔ اقلیت سواد اعظم نہیں ہو سکتی۔ اس لئے معاہدہ تو حقیقتاً وہی ہے جو تحریک لبیک کے ساتھ حکومت نے جمعہ کی رات کو کیا۔ اس لئے ہمارے معاہدے کے ساتھ کسی اور معاہدے کا ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر فواد چوہدری معاہدے کو عبوری بندوبست کہہ رہے ہیں تو وہ خبردار کرتے ہیں کہ یہ حکومت بھی عارضی ثابت ہو گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا مقدمات کی بڑی خبریں سن رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک ایک بھی ایف آئی آر سامنے نہیں آئی۔ اگر حکومت نے بدنیتی دکھائی اور معاہدے کے بعد خود ہی اشتعال انگیزی شروع کر دی تو علمائئے کرام گرفتاریوں سے پہلے گھبرائے تھے، نہ اب گھبرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ علما ایسا کام ہی نہیں کرتے جس کے بعد انہیں بھاری بھر کم سیکورٹی رکھنا پڑے۔ اوچھے ہتھکنڈے پچھلی حکومت نے بھی اختیار کئے تھے، اب یہ حکومت بھی ایسا کرنا چاہتی ہے تو شوق پورا کر لے، اسے بھی منہ کی کھانا پڑے گی۔ دین پر چلنے والوں کو پسپا نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے توہین رسالت کے جرم میں سیشن کورٹ اور بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ سے سزائے موت پانے والی آسیہ مسیح کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے فوری بعد لاہور میں چیئرنگ کراس پر تحریک لبیک پاکستان کے علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری نے احتجاجی دھرنے کا آغاز کر دیا، جبکہ اسی جماعت سے ٹوٹنے والے دوسرے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے داتا دربار کے باہر دھرنا شروع کر دیا۔ وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ ٹیم نے وفاقی وزیر مذہبی امور کی زیر قیادت صوبائی کابینہ کے ارکان اور اعلیٰ حکام کے ساتھ مل کر پیر افضل قادری کے زیر قیادت وفد سے ایک درجن کے قریب مذاکراتی دور کئے۔ اس دوران بارہ گھنٹے کیلئے ڈیڈ لاک بھی پیدا ہوا اور دو طرفہ مذاکرات میں سخت مکالموں اور جملوں کا بھی تبادلہ ہوتا رہا۔ تاہم جمعہ کی رات وفاقی حکومت اور تحریک لبیک کے نمائندہ وفد کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔ اسی دوران حکومتی وفد نے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کے احتجاجی دھرنے کو عملاً نظر انداز کئے رکھا۔ البتہ اگلے روز ان کے ساتھ بھی باضابطہ معاہدہ طے پا گیا۔
ذرائع کے مطابق حکومتی ٹیم نے جمعہ کی رات چیئرنگ کراس پر دھرنا دینے والوں کے ساتھ معاملات طے پانے کے بعد دوسرے دھڑے سے رابطہ کیا اور جمعہ کی رات سے ہفتہ کی شب تک مذاکرات کئے۔ اس دوران ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کی ٹیم کے افراد نے حکومتی وفد کے ساتھ گلہ بھی کیا کہ ان کی قیادت کی طرف سے قومی و ریاستی اداروں کے خلاف نازیبا اور سخت زبان استعمال نہیں کی گئی، اس لئے حکومت نے انہیں اہمیت ہی نہ دی۔ لیکن اس پر حکومتی وفد نے کہا کہ وہ انہیں نظر انداز نہیں کر رہے تھے۔ دراصل دوسری جانب کے معاملے میں بہت شدت تھی، لہذا اسے پہلے کنٹرول کرنا ضروری تھا۔ وہ پہلے بھی ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار تھے اور اب بھی ہیں۔ ایک مسئلہ یہ رہا کہ موبائل فونز بند تھے، جس کی وجہ سے بھی ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ بہر حال مذاکرات کامیاب رہے اور تقریباً انہی نکات پر حکومت نے تحریک لبیک کے اس دھڑے کے ساتھ بھی معاہدہ پر دستخط کر دیئے۔
اس معاہدے اور پچھلے معاہدے کے درمیان فرق کے بارے میں ایک سوال پر ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کے ترجمان آصف جلالی نے ’’امت‘‘ کو بتایا پچھلی حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر تقریباً 70 فیصد عمل ہو گیا تھا، لیکن 30 فیصد معاملات پر عمل نہیں ہوا تھا۔ جن نکات پر ابھی عمل نہیں ہوا، ان میں ایک معاملہ 4 کارکنان کا ہے جن کے نام فورتھ شیڈول سے ابھی تک نہیں نکالے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے سربراہ ڈاکٹر اشرف جلالی کا سابقہ حکومت نے 11 اضلاع میں داخلہ بند کیا تھا اور 16 اضلاع میں زبان بندی تھی۔ اسے موجودہ حکومت نے بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم مذاکرات میں یقین دلایا گیا ہے کہ نئی حکومت ان معاملات کا بھی جائزہ لے گی کہ کس طرح بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم کے ساتھ حکومتی ٹیم کے مذاکرات تین سے چار دور جاری رہے۔ ایک اور سوال پر آصف جلالی نے کہا کہ ’’یہ درست ہے کہ تقریباً 25 ماہ سے ہماری قیادت اور علامہ خادم رضوی کے ساتھیوں کے ساتھ ملاقات اور براہ راست بات نہیں ہوئی ہے، لیکن اگر اصولی بنیادوں پر ثالث مقرر کئے جائیں تو بہتری ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ درست ہے کہ اب تک ایسی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہوئی ہے۔ ہماری قیادت ’’بے باکانہ‘‘ تقریروں اور بیانات کے حق میں نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں حکومت کے ساتھ کئے گئے معاہدے میں کسی معاملے پر کوئی ندامت ہوئی نہ ہمیں تحریری معذرت کرنا پڑی ہے۔ ہمارے اور ان کے حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں اصل فرق یہی ہے۔ ڈاکٹر اشرف آصف نے سپریم کورٹ کے آسیہ مسیح کے بارے میں فیصلے کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے، اور یہ قرار دیا گیا ہے کہ آیات اور احادیث کے حوالے سے درست تناظر میں اور ان کے حقیقی معانی و مفاہم کے ساتھ پیش نہیں کئے گئے ہیں، بلکہ آیات و احادیث کا غلط مفہوم پیش کیا گیا ہے۔ یہ بہت بڑا سقم ہے۔ اس کے باوجود ہم نے احتجاج ایک دائرے کے اندر رہ کر کیا ہے اور کوئی غلط طریقہ اختیار نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل میں ڈاکٹر اشرف آصف بطور فریق خود دلائل پیش کریں گے، اگر قانون میں اس کی گنجائش نہ ہوئی تو ان کا وکیل ان کی طرف سے دلائل پیش کرے گا۔
دریں اثنا معروف قانون دان راشد حنیف ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی معاہدہ حکومت اور کسی جماعت کے درمیان ہوا ہے، اس کی بنیاد پر یہ حق کسی بھی ایسے فرد کا اسٹیبلش نہیں ہوتا کہ وہ عدالت میں آ کر دلائل پیش کرے۔ جس نے پہلے بطور وکیل عدالت میں دلائل پیش نہیں کئے ہیں۔ اس لئے جس وکیل نے دلائل دیئے تھے نظر ثانی کی اپیل وہی دائر کر سکتا تھا، جو اس نے کر دی لیکن موجودہ عدالتی ضوابط کار میں اسے بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ نئے سرے سے عدالت میں دلائل پیش کر سکے، وہ صرف ریکارڈ پر نظر آنے والی فاش غلطیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ ا گر ڈاکٹر اشرف آصف جلالی یا کوئی اور دلائل دینے کا خواہش مند ہے تو یہ اس کا حق ہے نہ موجودہ ضوابط کار اس کی اجازت دیتے ہیں۔ عدالت چاہے تو انہیں حق دے سکتی ہے مگر ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہے۔ اس کیلئے عدالت یہ دروازہ شاید نہیں کھولے گی۔