اقبال اعوان
نبی بخش تھانے کی حدود گارڈن میں 31 اکتوبر کو مبینہ پولیس مقابلے کے دوران مارا جانے والا 60 سالہ عبداللہ بیوی کیلئے دوا لینے گھر سے نکلا تھا۔ اہل خانہ اور محلے داروں کا کہنا ہے کہ عبداللہ دل کا مریض تھا اور پیٹ میں رسولی کے باعث اسے چلنے پھرنے میں بھی مشکل ہوتی تھی۔ جبکہ باریش معمر شہری کی نعش دیکھ کر سول اسپتال کا ایم ایل او بھی عبداللہ کو جرائم پیشہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھا۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ حصول انصاف کیلئے چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہیں۔
مقتول عبداللہ کی والدہ 85 سالہ بتول بی بی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کے بیٹے کا وزن 180 کلو گرام تھا۔ دل کا مریض اور پیٹ میں رسولی ہونے کی وجہ سے دوڑنا بھاگنا تو درکنار، اسے چلنے پھرنے میں بھی مشکل ہوتی تھی۔ اس نے چند دوستوں سے قرض بھی مانگا تھا کہ پیٹ کی رسولی نکلوانے کیلئے آپریشن کرا سکے۔ متوفی کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ اس کا شوہر 31 اکتوبر کی رات ساڑھے 8 بجے گھر سے اس کی دوائیاں لینے نکلا تھا۔ کچھ دیر بعد اطلاع آئی کہ ڈکیتی کر کے فرار ہوتے ہوئے پولیس نے عبداللہ کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ عبداللہ کے چھوٹے بھائی معین احمد کا کہنا تھا کہ اس کا بیمار بھائی مسلح پولیس اہلکاروں سے مقابلہ کس طرح کر سکتا تھا؟ وہ پنج وقتہ نمازی تھا۔ پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کو بچا رہی ہے۔
واضح رہے کہ کراچی کے علاقے گارڈن میں کوسٹ گارڈ ہیڈ کواٹر کے قریب جناح میرج گارڈن کے سامنے 31 اکتوبر کی رات پونے 9 بجے کے قریب پولیس مقابلہ ہونے کی انٹری چلائی گئی۔ نبی بخش تھانے کی حدود میں پولیس نے مبینہ طور پر موبائل فون چھیننے والے دو ملزمان پر فائرنگ کی تھی۔ اس دوران ایک ملزم مارا گیا اور ایک فرار ہوگیا۔ ایس ایچ او شارق کا بیان تھا کہ دو ملزمان شاہد نامی شخص سے لوٹ مار کر کے فرار ہو رہے تھے۔ موٹر سائیکل سوار ملزمان کو پولیس نے روکنے کی کوشش کی، جس پر ملزمان نے فائرنگ کر دی اور جوابی فائرنگ میں موٹر سائیکل چلانے والا ملزم ہلاک ہوگیا۔ جبکہ پیچھے بیٹھا ملزم فرار ہوگیا۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق پولیس جب مرنے والے ملزم کی لاش سول اسپتال لائی تو ایم ایل او اور دیگر ڈاکٹر حیرت زدہ تھے کہ موٹاپے کا شکار، معمر اور باریش شخص ڈکیت کیسے ہو سکتا ہے۔ پولیس نے اسلحہ اور واقعے میں استعمال ہونے والی موٹرسائیکل بھی برآمد کرلی تھی اور ’’ملزمان‘‘ کے خلاف مقدمات نمبر 131/18 130/18-129/18 درج کرلئے تھے۔
اتوار کو ’’امت‘‘ کی ٹیم مقتول عبداللہ کے گھر گئی۔ لائنز ایریا سیکٹر اے ون جیکب لائن میں کرائے کے ایک کمرے کے مکان میں عبداللہ اپنی بیوی، تین بچوں، والدہ اور بہن کے ساتھ رہتا تھا۔ علاقے والوں کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اس علاقے میں 4 سال قبل منتقل ہوئے تھے۔ عبداللہ ایک اسٹیٹ ایجنسی میں ملازم تھا۔ عبداللہ کی 85 سالہ والدہ بتول بی بی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس کا بیٹا تو دن بھر محنت مزدوری کرتا تھا۔ حالانکہ وہ دل کا مریض تھا اور اس کے پیٹ میں رسولی بھی تھی۔ اس کے باوجود وہ روزانہ کام پر جاتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’واقعے والی رات عبداللہ نے کہا تھا کہ اماں صبح کیلئے دودھ لے کر آتا ہوں اور تمہاری بہو کی دوائی بھی ختم ہو گئی ہے وہ بھی لیتا آؤں گا۔ میری بہو کے دماغ کا آپریشن ہو چکا ہے اور اسے باقاعدگی سے دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔ میں نے بہت کہا کہ بیٹا کھانا کھالے۔ مگر اس کا کہنا تھا کہ تھوڑی دیر میں واپس آکر کھالوں گا۔ نجانے کیوں میرا دل اس وقت بہت گھبرا رہا تھا۔ ایک گھنٹے بعد پولیس والوں نے میرے پوتے کے موبائل فون پر کال کی اور کہا کہ نبی بخش تھانے آجاؤ۔ وہ رشتے داروں کے ساتھ ادھر گیا تو کہا گیا کہ سول اسپتال چلے جاؤ۔ جب یہ لوگ سول اسپتال پہنچے تو مردہ خانے میں عبداللہ کی خون میں لت پت لاش پڑی تھی۔ وہاں موجود پولیس والوں کا کہنا تھا کہ عبداللہ نے پولیس پر فائرنگ کی تھی اور مقابلے میں مارا گیا۔ میرا بیٹا کنبے کا واحد کفیل تھا۔ جبکہ میرا پوتا محمد ولی انٹر میں پڑھ رہا ہے اور پوتی 14 سال کی ہے‘‘۔ عبداللہ کی اہلیہ زبیدہ، بہن شاہدہ اور بیٹے محمد ولی کا کہنا تھا کہ مقتول نمازی پرہیزگار شخص تھا، جس کی گواہی اہل محلہ سے بھی لی جاسکتی ہے۔ انہوں نے ’’امت‘‘ کے توسط سے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔