حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

سید ارتضی علی کرمانی
صداقت ثابت کرنے کی دلیل:
حضرت مالک بن دینارؒ کے بارے میں ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی ملحد سے آپ کا مناظرہ ہو گیا۔ آپ بھی اپنے موقف کو حق سچ سے تعبیر کرتے رہے اور ملحد بھی اپنے موقف کو درست ثابت کرنے پر تلا رہا۔ یہ صورت حال دیکھ کر لوگوں نے فیصلہ کیا کہ آپ کے اور اس ملحد کے ہاتھوں کو آگ میں ڈالا جائے، لہٰذا جس کے ہاتھ آگ سے محفوظ رہیں گے، اس کو حق سچ پر تصور کیا جائے گا۔
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، حیرت کی بات یہ تھی کہ دونوں میں سے کسی کے ہاتھ کو نقصان نہ پہنچا۔ اس پر طے یہ پایا کہ ملحد اور مالک ابن دینارؒ دونوں ہی حق سچ پر ہیں، مگر آپ اس صورت حال سے بہت افسردہ ہوئے اور حق تعالیٰ سے عرض کرنے لگے کہ اے باری تعالی! میں نے پورے ستّر سال تیری عبادت میں ریاضت میں گزار دیئے، مگر تو نے مجھے ایک ملحد کے برابر قرار دیا۔ اس پر غیب سے آواز آئی کہ اے مالک! تمہارے ہاتھ کی وجہ سے ایک ملحد کا ہاتھ جلنے سے بچ گیا، کیا تمہیں اس کی خوشی نہیں ہے۔ اگر وہ تنہا اپنا ہاتھ آگ میں ڈال دیتا تو یقیناً وہ جل جاتا۔ (خزینۃ الاصفیاء جلد 5 ص 20)
حضرت مالک بن دینارؒ کی دانائی:
خود شناسی کے ساتھ ساتھ آپ کو لوگوں کو پرکھنے اور ان کے باطن کو بھی سمجھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم بھی موجود تھی، مثلاً ایک مرتبہ حضرت مالک بن دینارؒ کسی مریض کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے، وہاں پہنچ کر جب آپ نے دیکھا کہ مریض قریب المرگ ہے اور زندگی کے آخری سانس گن رہا ہے تو آپ نے اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین فرمائی، لیکن جب وہ کلمہ پڑھنے کے بجائے باربار ’’دس اور گیارہ‘‘ کہتا رہا تو آپ نے اس کا سبب دریافت کیا۔
آپ نے جب ایک مرتبہ پھر کلمہ پڑھنے کے لیے کہا تو مریض نے نقاہت کے عالم میں بتایا کہ جب وہ کلمہ پڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے سامنے آگ کا پہاڑ آجاتا ہے اور آگ کے شعلے اس کی جانب لپکتے ہیں، حضرت مالک بن دینارؒ نے مریض کے پاس کھڑے دوسرے لوگوں سے پوچھا، کیا یہ شخص سود کا کاروبار کرتا ہے؟
لوگوں نے کہا: حضرت! یہ تو بالکل سچ ہے، لیکن آپ نے کیسے جانا؟ اس پر حضرت مالک بن دینارؒ نے فرمایا کہ جس شخص کو دم آخر دشواری نظر آئے تو سمجھ لو کہ وہ کم تولنے والا اور سود کھانے والوں میں سے تھا۔ (تذکرۃ الاولیاء ص 23)
ایک مرتبہ حضرت پیر مہرعلی شاہ صاحبؒ آئینہ دیکھ رہے تھے تو ملک سلطان محمود صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ حضرت صاحبؒ مسکرائے اور فرمایا: ’’میں اس صورت کو دیکھ رہا تھا۔ جس کے صانع نے اپنی حسن صنعت پر چار چیزوں، التین، الزیتون، طور سینین اور البلد الامین کی قسم کھائی ہے۔‘‘
حضرت صاحبؒ کی ایک کرامت آپ کا علم بیکراں تھا۔ جو ہر وقت جلو میں دست بستہ حاضر رہتا، جس طرح چاہتے اس کو تصرف میں لے آتے۔ حضرت حاجی رحمت اللہ مہاجر مکی، جو کہ عالم عرب و عجم تھے۔ حاجی صاحب بھی چند ملاقاتوں کے بعد آپ کے گرویدہ ہوگئے۔
اسی طرح ایک عیسائی پادری فنڈر تھا۔ اس نے حضرت صاحبؒ کے ساتھ مناظرہ کرنا چاہا۔ مگر مجلس کے اختتام کے بعد اس نے آپؒ سے تحریری معافی مانگ لی۔ پادری فنڈر نے اس خزانہ کو علم لدنی قرار دیا تھا۔
پشاور کے قاضی قدرت اللہ صاحب کو جو ہر سال ملوک افغان و خراسان کو وعظ کہنے جاتے تھے، مناظرہ سماع کے بعد اس علم کے سامنے دست بیعت دراز کرنا پڑا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment