حضرت کعب بن مالکؓ کا بیا ن ہے کہ میں غزوہ احد کے موقع پر ان مسلمانوں میں تھا، جو گھاٹی سے باہر آئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ مشرکین کے ہاتھوں مسلمان شہداء کا مثلہ کیا جا رہا ہے تو رک گیا، پھر آگے بڑھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مشرک جو بھاری بھرکم زِرہ میں ملبوس تھا، شہیدوں کے درمیان سے گزر رہا ہے اور کہتا جا رہا ہے کہ ’’کٹی ہوئی بکریوں کی طرح ڈھیر ہو گئے‘‘ دیکھا کہ ایک مسلمان اس کی راہ تک رہا ہے،. وہ بھی زِرہ پہنے ہوئے ہے۔
میں چند قدم اور بڑھ کر اس کے پیچھے ہولیا، پھر کھڑے ہو کر آنکھوں ہی آنکھوں میں مسلم اور کافر کو تولنے لگا، محسوس ہوا کہ کافر اپنے ڈیل ڈول اور سازوسامان دونوں لحاظ سے بہتر ہے، اب میں دونوں کا انتظار کرنے لگا، بالآخر دونوں میں ٹکر ہوگئی اور مسلمان نے کافر کو ایسی تلوار ماری کہ وہ پائوں تک کاٹتی چلی گئی، مشرک دو ٹکڑے ہو کر گرا، پھر مسلمان نے اپنا چہرا کھولا اور کہا: ’’او کعب! کیسی رہی؟‘‘ میں ابو دجانہؓ ہوں۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ 4/17)
خاتمہ جنگ پر کچھ مومن عورتیں میدانِ جہاد میں پہنچیں، چنانچہ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ بنت ابی بکرؓ اور اپنی والدہ محترمہ حضرت امِ سلیمؓ کو دیکھا کہ پیٹھ پر مشک لاد لاد کر لارہی تھیں اور قوم کے منہ میں انڈیل رہی تھیں۔ (صحیح بخاری)
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ احد کے روز حضرت ام سلیطؓ ہمارے لیے مشک بھر بھر کر لارہی تھیں۔ (ایضاً)
حضرت سَہلؓ فرماتے ہیں: ’’مجھے معلوم ہے کہ رسول اقدسؐ کا زخم کس نے دھویا، پانی کس نے بہایا اور علاج کس چیز سے کیا گیا؟ آپؐ کی لختِ جگر حضرت فاطمہؓ آپؐ کا زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علیؓ ڈھال سے پانی بہا رہے تھے، جب حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی کے سبب خون بڑھتا ہی جا رہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے جلا کر چپکا دیا، جس سے خون رک گیا۔ (صحیح بخاری)
ادھر حضرت محمد بن مسلمہؓ شیریں اور خوش ذائقہ پانی لائے، نبی اکرمؐ نے نوش فرمایا اور دعائے خیر دی۔ (السیرۃ الحلبیہ)
زخم کے اثر سے نبی اکرمؐ نے ظہر کی نماز بیٹھے بیٹھے پڑھی اور صحابہ کرامؓ نے بھی آپؐ کے پیچھے بیٹھ ہی کر نماز ادا کی۔ (ابن ہشام)
قریش کی واپسی کے بعد مسلمان اپنے شہیدوں اور زخمیوں کی کھوج خبر لینے کے لیے فارغ ہوگئے۔ حضرت زید بن ثابتؓ کا بیان ہے کہ احد کے روز رسول اکرمؐ نے مجھے بھیجا کہ میں سعد بن الربیعؓ کو تلاش کروں اور فرمایا کہ ’’اگر وہ دکھائی پڑجائیں تو انہیں میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ رسول اقدسؐ دریافت کر رہے ہیں کہ تم اپنے آپ کو کیسا پا رہے ہو؟‘‘
حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ میں مقتولین کے درمیان چکر لگاتے ہوئے ان کے پاس پہنچا تو ان کی آخری سانس آ جا رہی تھی، انہیں نیزے، تلوار اور تیر کے ستر سے زیادہ زخم آئے تھے۔ میں نے کہا: ’’اے سعد! رسول اقدسؐ آپ کو سلام کہتے ہیں اور دریافت فرما رہے ہیں کہ مجھے بتائو اپنے آپ کو کیسا پا رہے ہو؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’رسول اقدسؐ کو سلام… آپ سے عرض کرو کہ حضور! جنت کی خوشبو پا رہا ہوں اور میری قوم انصار سے کہو کہ اگر تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی اور دشمن رسول اکرمؐ تک پہنچ گیا تو تمہارے لیے خدا کے نزدیک کوئی عذر نہ ہوگا‘‘ اور اسی وقت ان کی روح پرواز کر گئی۔ (زاد المعاد)
لوگوں نے زخمیوں میں ’’اصیرم‘‘ کو بھی پایا جن کا نام عمرو بن ثابت تھا۔ ان میں تھوڑی سی رمق باقی تھی۔ اس سے قبل انہیں اسلام کی دعوت دی جاتی تھی، مگر وہ قبول نہیں کرتے تھے، اس لیے لوگوں نے (حیرت سے) کہا: ’’یہ اصیرم کیسے آیا ہے؟ اسے تو ہم نے اس حالت میں چھوڑا تھا کہ وہ اس دین کا انکاری تھا‘‘ چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہاں کیا چیز لے آئی، قوم کی حمایت کا جوش یا اسلام کی رغبت؟
انہوں نے کہا: اسلام کی رغبت، درحقیقت میں خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لے آیا اور اس کے بعد رسول اکرمؐ کی حمایت میں شریک جنگ ہوا، یہاں تک کہ اب اس حالت سے دوچار ہوں، جو آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں نے رسول اکرمؐ سے اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’وہ جنتیوں میں سے ہے‘‘ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حالانکہ اس نے خدا کے لیے ایک وقت کی بھی نماز نہیں پڑھی تھی (کیونکہ اسلام لانے کے بعد ابھی کسی نماز کا وقت آیا ہی نہ تھا کہ شہید ہوگئے) (ابن ہشام)
ان ہی زخمیوں میں ’’قزمان‘‘ بھی ملا، اس نے جنگ میں خوب خوب داد شجاعت دی تھی اور تنہا سات یا آٹھ مشرکین کو تہ تیغ کیا تھا، وہ جب ملا تو زخموں سے چور تھا، لوگ اسے اٹھا کر بنو ظفر کے محلے میں لے گئے اور مسلمانوں نے خوشخبری سنائی، کہنے لگا: بخدا! میری جنگ تو محض اپنی قوم کے ناموس کے لیے تھی اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لڑائی ہی نہ کرتا۔ اس کے بعد جب اس کے زخموں نے شدت اختیار کی تو اس نے اپنے آپ کو ذبح کرکے خودکشی کرلی۔ ادھر رسول اکرمؐ سے اس کا جب بھی ذکر کیا جاتا تھا تو فرماتے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔ (زاد المعاد۔ ابن ہشام)
اور اس واقعے نے آپؐ کی پیش گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی، حقیقت یہ ہے کہ دین کے بجائے کسی بھی دوسری راہ میں لڑنے والوں کا انجام یہی ہے، چاہے وہ اسلام کے جھنڈے تلے بلکہ رسول اقدسؐ اور صحابہ کے لشکر ہی میں شریک ہوکر کیوں نہ لڑرہے ہوں۔ اس کے بالکل برعکس مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا۔ اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلارہے تھے، اپنی قوم سے کہا: ’’اے جماعت یہود! خدا کی قسم! تم جانتے ہو کہ محمدؐ کی مدد تم پر فرض ہے‘‘ یہود نے کہا’’مگر آج سَبت (سنیچر) کا دن ہے‘‘ اس نے کہا ’’تمہارے لیے کوئی سبت نہیں‘‘ پھر اس نے اپنی تلوار لی، ساز وسامان اٹھایا اور بولا ’’اگر میں مارا جائوں تو میرا مال محمدؐ کے لیے ہے، وہ اس میں جو چاہیں گے، کریں گے‘‘ اس کے بعد میدانِ جنگ میں گیا اور لڑتے بھِڑتے مارا گیا۔ رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’مخیریق بہترین یہودی تھا۔‘‘ (ابن ہشام 2/88، 89)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭