اولیائے کرام کا تواضع!

حضرت ذوالنون مصریؒ بڑے درجے کے اولیائے کرام میں سے ہیں،ان کے بارے میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ بارش نہیں ہوئی اور کافی وقت گزر گیا، لوگ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی نہیں ہے، آپ رب تعالیٰ سے دعا کردیں تاکہ وہ باران رحمت نازل فرمائے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں دعا تو کر لوں گا، لیکن ایک بات سن لو، وہ یہ کہ قرآن کریم میں ہے کہ جو کچھ تمہیں دنیا میں کوئی مصیبت یا پریشانی آتی ہے، وہ لوگوں کی بد اعمالیوں اور گناہوں کی وجہ سے آتی ہے۔
لہٰذا بارش اگر نہیں ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم بد اعمالیوں میں مبتلا ہیں اور ان بد اعمالیوں کی وجہ سے حق تعالیٰ نے ہم سے بارش کو روک دیا ہے، اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم میں سے کونسا شخص سب سے زیادہ بد اعمالی میں مبتلا ہے اور جب میں اپنا جائزہ لیتا ہوں تو یہ نظر آتا ہے کہ پوری بستی میں مجھ (ذوالنون مصری) سے زیادہ کوئی گناہ گار آدمی نہیں ہے، اس لیے میں اس بستی سے چلا جاتا ہوں۔ اتنے بڑے بزرگ اور اتنی استغنا کا مظاہرہ، اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم کس قطار میں ہیں۔ (اصلاحی خطبات)
’’بڑی بات‘‘ کہنے کا انجام!
ایک بزرگ تھے، ایک مرتبہ کسی حالت میں ان کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ یا الٰہی! آپ کے علاوہ مجھے کسی کی ذات میں مزہ نہیں ملتا، آپ جس طرح چاہیں، مجھےآزما کر دیکھ لیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا پیشاب بند ہو گیا، اب سخت پریشانی میں ہیں، کئی دن اس حالت میں گزر گئے، پھر خیال ہوا کہ کتنی غلط بات میرے منہ سے نکل گئی تھی، ان کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے، اس حالت میں وہ بچوں سے کہتے کہ اپنے جھوٹے چچا کے لیے خدا تعالیٰ سے دعا کرو، انسان کو بڑی بات سے اپنے آپ کو روکنا چاہیے، یہ حق تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ (کتابوں کی درسگاہ میں)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment