سرفروش

عباس ثاقب
میرے پاس اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ ڈاک بنگلے میں گھس کر اپنے قیاس کی تصدیق یا تردید کروں۔ لیکن میں عمارت کے سامنے موجود کھلا میدان پار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ چاندنی میں وہ مجھے دور ہی سے دیکھ لیتے اور پھر بڑے اطمینان سے مجھ پر نشانہ بازی کی مشق کرتے۔ لہٰذا میں درختوں کے درمیان سے دائرہ بناتے ہوئے ڈاک بنگلے کے عقب کی طرف بڑھنے لگا۔
یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بار بار خاردار جھاڑیاں جسم پر خراشیں ڈال رہی تھیں۔ ٹھوکریں لگ رہی تھیں۔ راہ مسدود ہونے کی وجہ سے چکر کاٹ کر اندھیرے میں ٹٹولنے کے انداز میں آگے بڑھنا پڑا۔ لیکن میں نے رفتار حتی الامکان تیز رکھی۔ بالآخر میں اپنے اندازے کے مطابق ڈاک بنگلے کے عقب میں پہنچ گیا۔ میں حتی الامکان احتیاط سے بے آواز قدمو ں کے ساتھ درختوں کے درمیان سے آگے بڑھنے لگا۔
لکڑی کے لٹھوں کی ایک ادھوری، ٹوٹی پھوٹی باڑھ سامنے دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ میرا اندازہ درست ہے۔ میں نے باڑھ کے پاس پہنچ کر اندر کا جائزہ لیا تو ایسے قطعہ اراضی نے استقبال کیا، جو کبھی عقبی باغیچہ رہا ہوگا۔ سامنے ڈاک بنگلے کے کمروں کے تین دروازے دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے دو بند تھے اور ایک نیم وا تھا۔ ان دروازوں تک پہنچنے کے لیے تیس چالیس گز کا یہ فاصلہ مجھے چاندنی میں دیکھے جانے کا خطرہ مول لیتے ہوئے طے کرنا تھا۔
کئی منٹوں تک گہری نظروں سے ڈاک بنگلے کے عقبی رخ کا جائزہ لینے کے بعد مجھے اپنی تمام کاوشیں اور احتیاطیں بے سود لگیں۔ وہاں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ میرا یہ قیاس شاید واقعی خیالی پلاؤ کے مترادف تھا کہ لٹیرے ان تایا بھتیجوں کو اغوا کر کے اسی ڈاک بنگلے میں لائے ہوں گے۔ اگر وہ کئی گھنٹے پہلے اسی جنگل میں آئے بھی تھے تو انہوں نے غالباً گھگھر دریا کے کنارے گھنے جنگل، یعنی محفوظ علاقے میں واقع اپنے ٹھکانے پر لے جاکر انہیں قید کردیا تھا۔ جہاں پہنچنا فی الحال میرے لیے ممکن نہیں۔
میں نے سوچا کہ اگر یہ ڈاک بنگلا واقعی خالی ہے تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ میں آج کی باقی رات اور کل کا سارا دن اسی ڈاک بنگلے میں چھپ کر انتظار کروں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ کل شام تک اغوا کنندگان تاوان کے ساتھ میری آمد کی امید کے ساتھ جنگل کے گھنے حصے سے اس طرف آئیں گے اور جنگل میں داخل ہونے والے راستے کی نگرانی کرتے ہوئے خود میری نظروں میں آجائیں گے۔ شاید اس طرح میں امر دیپ اور مانو تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاؤں۔
اس فیصلے پر پہنچنے کے بعد میں تیزی سے لیکن حتی الامکان بے آواز قدموں سے دوڑتا ہوا نیم وا دروازے کی طرف بڑھا اور پھر دروازے کے ساتھ رک کر اندر کی سن گن لینے کی کوشش کی۔ بظاہر اندر مکمل خاموشی تھی۔ لیکن پھر اچانک میں نے ایک عجیب سی آواز سنی۔ میرا دل ہیجان کی شدت سے تیزی سے دھڑکا۔ وہ آواز خاصی واضح، لیکن میرے لیے ناقابلِ شناخت تھی۔ میں نے اپنے ذہن پر زور ڈال کر پہچاننے کی کوشش کی کہ یہ کیسی آواز ہے۔ تبھی مجھے وہ آواز دوبارہ سنائی دی۔ اچانک میرے ذہن میں بجلی سی چمکی ۔ پھرررر… یہ گھوڑے کے ہونٹ پھڑپھڑانے کی آواز تھی۔
یہ ادراک ہوتے ہی میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میں صحیح جگہ پہنچا ہوں۔
میں نے دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہوئے اندر جھانکا۔ وہاں مکمل تاریکی تھی۔ البتہ عین اسی وقت میری ناک میں گھوڑوں کی لید کی مخصوص بدبو پہنچی۔ میں نے مجبوراً ترچھا ہوکر اپنا جسم نیم وا دروازے سے اندر داخل کیا۔ اندر پہنچنے پر کوئی ردِ عمل نہ پاکر میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے لگائے آگے بڑھا۔ میں اندازہ ہی لگا سکتا تھا کہ وہ گھوڑا سامنے بندھا ہوا ہے۔ اگر میرا اندازہ درست تھا تو وہاں دو گھوڑے بندھے ہونے چاہئے تھے۔ لیکن میری نظریں تصدیق کرنے سے قاصر تھیں۔ میرے دل میں خواہش جاگی کہ کاش میرے پاس بیٹری والی ٹارچ ہوتی۔ اس ضرورت کا پہلے خیال آجاتا تو راستے سے کہیں بندوبست ممکن تھا۔ بلکہ شاید جیپ میں بھی کوئی ٹارچ موجود رہی ہو۔ لیکن اب پچھتاوا بے سود تھا۔
اندر آنے کے بعد میری آنکھیں رفتہ رفتہ اندھیرے سے کچھ مانوس ہوئیں تو بہت موہوم سے خاکے دیکھنے کے قابل ہوگئیں۔ میں نے غور سے دیکھا تو تصدیق ہوگئی کہ وہاں سفید رنگ کا صرف ایک گھوڑا بندھا ہوا ہے۔ میں نے خود کو اس انکشاف کے نتیجے میں ہونے والی مایوسی سے بچانے کی کوشش کی۔ ہوسکتا ہے ان بدمعاشوں میں ایک اپنے گھوڑے پر کسی نزدیکی گاؤں میں واقع اپنے گھر چلا گیا ہو۔
میں نے گومگوں کی یہ کیفیت ذہن سے جھٹکتے ہوئے اس طرف قدم بڑھائے، جو میرے اندازے کے مطابق اندر جانے کا راستہ تھا۔ میں نے جیسے ہی اندر قدم رکھا، سامنے پیلی روشنی کی جھلک دکھائی دی۔ میں جلدی سے پیچھے ہٹا اور پھر احتیاط سے جھانکا۔ سامنے ایک برآمدہ تھا، جس کے دوسری طرف ایک کمرے کے کھلے دروازے کے عین سامنے مٹی کے تیل کا ایک لیمپ روشن تھا۔ کھلے دروازے سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا، اس میں ایک شخص دو نالی شاٹ گن اپنے پہلو میں لیے دیوار سے ٹیک لگائے سو رہا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment