کراچی کے مزدوروں کو شناختی کارڈ چیک کرکے قتل کیا گیا

امت رپورٹ
گوادر میں کراچی کے مزدوروں کو شناختی کارڈ چیک کرکے قتل کیا گیا۔ بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گرد فائرنگ کے دوران پوچھتے رہے کہ منع کرنے کے باوجود دوسرے صوبے سے روزگار تلاش کرنے گوادر کیوں آئے۔ بدھ 31 اکتوبر کو دن دیہاڑے گوادر کے ساحلی علاقے میں غریب مزدوروں پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔ بچ جانے والے مزدور یاسر اور ہلاک ہونے والے 3 افراد ارشاد، نعیم اور شاکر کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا اور وہ کراچی کے علاقے کورنگی کے رہائشی تھے۔ ایک مزدور مقامی تھا، جو فائرنگ کی زد میں آکر مارا گیا۔
واضح رہے کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے دہشت گرد پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو قتل کرتے ہیں۔ یا وہ افراد ان کا نشانہ بنتے ہیں جو انسانی اسمگلروں کے ساتھ یورپ جانے کیلئے پاک ایران بارڈر ایریا میں آتے ہیں۔ تاہم بلوچستان کے وسطی علاقے میں کراچی کے مزدوروں کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں امریکہ، اسرائیل، افغانستان اور بھارت سمیت دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے مضبوط نیٹ ورکس موجود ہیں۔ جو سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے اور ڈیمز کی تعمیر رکوانے کیلئے پاکستان کے حالات خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر بی ایل اے کے دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے گئے مزدوروں کے ورثا اپنے پیاروں کی ہلاکت کے حوالے سے بلوچستان حکومت سے خود رابطہ نہیں کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں بلوچستان بلوائے جانے کی صورت میں اپنی جان کا بھی خدشہ ہے۔ جبکہ بچ جانے والا یاسر نہایت خوفزدہ ہے۔ ہولناک واقعہ کے حوالے سے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ کئی مرتبہ بے ہوش ہوا اور صحیح طریقے سے بات نہیں کر سکا۔ یاسر کے اہل خانہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس کو کچھ دن تک الگ تھلگ رکھا جائے۔
دہشت گردوں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے محمد نعیم ولد بابو خان کے بھائی نصیر احمد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وہ کورنگی کے مستقل رہائشی اور کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔ لیکن آج کل کراچی میں مزدوری کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے مرنے والے نعیم، شاکر، ارشاد اور بچ جانے والا یاسر آپس میں کزنز ہیں۔ وہ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرتے تھے اور انہیں آٹھ سو تا ایک ہزار روپے تک دیہاڑی ملتی تھی۔ ان کے ٹھیکیدار عادل نے کہا کہ اس کو بلوچستان میں کام ملا ہے، پندرہ سولہ دن کا کام ہے۔ تم لوگوں کے چودہ پندرہ ہزار روپے بن جائیں گے۔ انہیں بڑے بھائی نے منع کیا تھا کہ بلوچستان کے حالات خراب ہیں، وہاں مزدوری کیلئے نہیں جانا۔ لیکن ٹھیکیدار کی ٹیم کے انچارج شاکر نے کہا کہ آج کل حالات بہتر ہیں۔ اس طرح اپنے بچوں کیلئے روٹی کمانے یہ غریب مزدور گوادر چلے گئے۔ نصیر احمد نے بتایا کہ ان لوگوں سے فون پر رابطہ ہوتا تھا۔ واقعہ سے ایک روز قبل ٹھیکیدار عادل گوادر کا چکر لگا کر کراچی آیا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ وہاں سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔ لیکن اگلے ہی روز 31 اکتوبر کی سہ پہر فون آیا کہ تمہارے بھائی نعیم احمد اور دیگر کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا ہے، اس کی لاش گوادر کے اسپتال میں رکھی ہے۔ جبکہ باقی افراد کی لاشیں جیوانی کے اسپتال میں ہیں۔ نصیر احمد کا کہنا تھا کہ اس نے فوری طور پر گھر والوں کو نہیں بتایا اور تصدیق کرنے کیلئے گوادر میں رابطہ کرنے لگا۔ اس دوران پتا چلا کہ دوپہر ڈھائی بجے فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔ بعد میں ٹی وی پر خبر آگئی کہ گوادر کے ساحلی علاقے میں 5 مزدوروں کو دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا اور ان میں سے ایک زخمی ہے۔ مرنے والوں کی شناخت نہیں ہوئی ہے۔ نصیر احمد کے بقول ٹھیکیدار عادل کو بتایا تو اس نے گوادر میں اپنے لوگوں سے کہا کہ لاشیں کراچی بھجوا دو۔ اس افسوس ناک واقعہ کے بارے میں خاندان کے مردوں کو بتا دیا تھا، لیکن خواتین سے چھپایا تھا۔ اگلے روز صبح سویرے اطلاع ملی کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس مرنے والوں کی لاشیں اور زخمی کو لے کر ایدھی سرد خانے سہراب گوٹھ پہنچ گئی ہیں۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ نعیم کے علاوہ دو رشتے دار شاکر اور ارشاد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ زخمی یاسر بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ نعیم اور شاکر کی تدفین کورنگی میں کردی گئی، جبکہ ارشاد کی میت اس کے بھائی آبائی گاؤں سکھر لے گئے تھے۔ واقعہ کے بارے میں یاسر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ’’31 اکتوبر کی دوپہر ہم لوگ گھر کی تعمیر میں معروف تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار بلوچی زبان بولنے والے افراد آئے۔ ان کے پاس اسلحہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے شناختی کارڈ دکھاؤ۔ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد انہوں نے تمام افراد کو ایک جگہ کھڑا کیا اور پوچھنے لگے کہ کراچی سے ادھر کیوں آئے ہو۔ یہاں دوسرے صوبے والوں کیلئے کوئی جگہ اور روزگار نہیں ہے۔ پھر ہمیں کہا کہ ہاتھ سر پر رکھ کر دیوار کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ اس دوران میں نے سمجھ لیا تھا کہ موت یقینی ہے۔ لیکن ایک کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ جونہی پانچ افراد لائن میں کھڑے ہو رہے تھے۔ میں وہاں سے نکل بھاگا اور زیر تعمیر عمارت کے پیچھے جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ چند لمحے بعد میں نے فائرنگ کی آواز سنی۔ کچھ دیر بعد وہاں سے نکل کر میں نے پھر بھاگنا شروع کردیا اور بھاگتے بھاگتے گر کر بے ہوش ہوگیا۔ جب ہوش آیا تو میں اسپتال میں تھا‘‘۔
جاں بحق ہونے والے شاکر کے بھائی زاہد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ شاکر ان افراد کو لے کر گیا تھا اور خود بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن گیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بلوچستان میں اب بھی دوسرے صوبوں کے لوگوں کیلئے اتنی نفرت پائی جاتی ہے۔ زاہد کا کہنا تھا کہ ایک دو روز میں ان لوگوں نے واپس آنا تھا، لیکن اب ان کی لاشیں آئی ہیں۔ جو رقم ٹھیکے دار نے دی تھی، وہ یتیم بچوں کو دے دی ہے۔ بمشکل 15 ہزار روپے بنے تھے۔ میتیں علاقے میں آئیں تو اہل محلہ سوگوار خاندانوں کی مالی حالت سے واقف تھے۔ لہذا آپس میں چندہ کرکے تدفین کا بندوبست کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ارشاد کی میت اس کے گھر والے سکھر لے گئے تھے۔ جبکہ مقتول نعیم اور شاکر کے گھروں میں فاقوں کی نوبت ہے۔ چوتھا کزن یاسر دماغی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے مزدوری نہیں کر سکتا۔
مقتول نعیم کی والدہ جمیلہ کا کہنا تھا کہ ’’اس واقعہ کی ذمہ دار بلوچستان حکومت ہے کہ اس کی جانب سے سیکورٹی نہیں دی گئی اور دن دیہاڑے نوجوانوں کو قتل کردیا گیا۔ بلوچستان حکومت لاشیں بھجوا کر لاتعلق ہوگئی ہے۔ نعیم گھر کا واحد کفیل تھا اور اس نے کرائے کے گھر میں مجھ سمیت اپنے بیوی بچوں کو رکھا ہوا تھا۔ اب یتیم بچوں کا کیا ہوگا۔ ابھی تو دو تین روز سے علاقے والے کھانا دے رہے ہیں۔ حکومت فوری طور پر غریب مزدوروں کے یتیم بچوں کی مالی امداد کرے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بھی سوئی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں سندھ کے مزدور مارے گئے اور کوئی حکومتی نمائندہ داد رسی کیلئے نہیں آیا‘‘۔ علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ مرنے والے تینوں مزدوروں کے خاندان انتہائی غریب ہیں ہے اور ان کے گھروں دو وقت کا راشن بھی نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment