ہفتہ 7شوال 3ھ کو سرِ شام رسول اقدسؐ مدینہ پہنچے۔ صحابہ کرامؓ نے معرکہ احد سے واپس آکر (8 شوال 3ھ ہفتہ و اتوار کی درمیانی) رات ہنگامی حالت میں گزاری۔ جنگ نے انہیں چور چور کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کے راستوں اور گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے اور اپنے سپہ سالارِ اعظم رسول اقدسؐ کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے، کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔
ادھر رسول اکرمؐ نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے گزاری۔ آپؐ کو اندیشہ تھا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقینا ندامت ہوگی اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے، اس لیے آپؐ نے فیصلہ کیا کہ بہرحال مکی لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہئے۔
چنانچہ اہلِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اکرمؐ نے معرکہ احد کے دوسرے دن یعنی اتوار 8 /شوال 3ھ کو علی الصباح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لیے چلنا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکہ احد میں موجود تھا۔ ابن ابی ابن سلول (رئیس المنافقین) نے اجازت چاہی کہ آپ کا ہمرکاب ہو، مگر آپؐ نے اجازت نہ دی۔ ادھر جتنے مسلمان تھے اگرچہ زخموں سے چور، غم سے نڈھال اور اندیشہ وخوف سے دوچار تھے، لیکن سب نے بلا تردد سرِ اطاعت خم کردیا۔
حضرت جابرؓ نے بھی اجازت چاہی جو جنگ احد میں شریک نہ تھے، حاضر خدمت ہوکر عرض پرداز ہوئے: حضور! میں چاہتا ہوں کہ آپ جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں میں بھی حاضر خدمت رہوں اور چونکہ (اس جنگ میں) میرے والد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر روک دیا تھا، لہٰذا آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں۔ (اور ان کے والد اس معرکہ میں شہید ہوگئے) اس پر آپؐ نے انہیں اجازت دے دی۔
پروگرام کے مطابق رسول اکرمؐ مسلمانوں کو ہمراہ لے کر روانہ ہوئے اور مدینے سے آٹھ میل دور ’’حمراء الاسد‘‘ پہنچ کر خیمہ زن ہوئے۔
اثنائے قیام معبد بن ابی معبد خزاعیؓ رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھے، لیکن رسول اکرمؐ کے خیر خواہ تھے، کیونکہ خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان حلف (یعنی دوستی وتعاون کا عہد) تھا، بہرکیف انہوں نے کہا: ’’حضور! آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جو زک پہنچی ہے، وہ بخدا ہم پر سخت گراں گزری ہے، ہماری آرزو تھی کہ خدا آپ کو بعافیت رکھتا‘‘ اس اظہارِ ہمدردی پر رسول اکرمؐ نے ان سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائو اور اس کی حوصلہ شکنی کرو۔
ادھر رسول اقدسؐ نے جو اندیشہ محسوس کیا تھا کہ مشرکین مدینے کی طرف پلٹنے کی بات سوچیں گے، وہ بالکل برحق تھا۔ چنانچہ مشرکین نے مدینے سے 34 میل دور مقام ’’رَوحاء‘‘ پر پہنچ کر جب پڑائو ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی اور کہنے لگے: ’’تم لوگوں نے کچھ نہیں کیا، ان کی شوکت وقوت توڑ کر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا، حالانکہ ابھی ان کے اتنے سر باقی ہیں کہ وہ تمہارے لیے پھر درد ِسر بن سکتے ہیں، لہٰذا واپس چلو اور انہیں جڑ سے صاف کردو۔‘‘
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سطحی رائے تھی، جو ان لوگوں کی طرف سے پیش کی گئی تھی، جنہیں فریقین کی قوت اور ان کے حوصلوں کا صحیح اندازہ نہ تھا، اسی لیے ایک ذمہ دار افسر صفوان بن امیہ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا: ’’لوگو! ایسا نہ کرو، مجھے خطرہ ہے کہ جو (مسلمان غزوئہ احد میں) نہیں آئے تھے، وہ بھی اب تمہارے خلاف جمع ہو جائیں گے، لہٰذا اس حالت میں واپس چلے چلو کہ فتح تمہاری ہے، ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ مدینے پر پھر چڑھائی کرو گے تو گردش میں پڑ جائو گے۔‘‘
لیکن بھاری اکثریت نے یہ رائے قبول نہ کی اور فیصلہ کیا کہ مدینے واپس چلیں گے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭