عصمت وعفت کی حفاظت کا انعام

عبدالمالک مجاہد
اس علاقے کا بادشاہ سیر و تفریح کے لیے ساحل سمندر پر آیا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سمندر میں طوفان آ گیا ہے۔ اس کے علم کے مطابق یہ وقت طوفان کا نہ تھا، مگر پھر بھی طوفان آیا اور جلد ہی اتر بھی گیا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ ایک عورت لکڑی کے تختے کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ اس نے شاہی ملاحوں کو حکم دیا کہ فوراً اس عورت کی مدد کی جائے۔ جلد ہی ملاح اس عورت تک پہنچ گئے۔ انہوں نے اسے اپنی حفاظت میں لے لیا اور ساحل سمندر تک لے آئے۔ ساحل پر طبیب اس کا منتظر تھا۔ اس نے ضروری علاج معالجہ کیا۔ چند گھنٹوں کے بعدوہ خاتون بھلی چنگی ہوگئی۔
بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا بھیجا۔ یہ خاتون غیر معمولی خوبصورت تھی۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا: تم کون ہو اور سمندر میں کیوں سفر کر رہی تھیں؟ اس نے جواب میں مختصر کہانی سنا دی۔ بادشاہ کو اس کی بلند کرداری اور عصمت کی حفاظت والی بات بڑی اچھی لگی۔ بادشاہ نے اسے شادی کی پیش کش کر دی۔ خاتون کو تو حفاظت درکار تھی۔ اس کو اپنے سابق خاوند سے طلاق لیے ہوئے کئی ماہ گزر چکے تھے۔ عدت بھی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے موافقت میں سر ہلا دیا۔ بادشاہ نے اس کے ساتھ شادی کر لی۔ یہ عورت غیر معمولی ذہین وفطین بھی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ امور سلطنت میں بادشاہ کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ وہ رعیت کے ساتھ خیر خواہی کرتی۔ ان کے کام آتی، تھوڑے ہی عرصہ میں اس نے رعیت کے لیے بہت سے کام سر انجام دے ڈالے۔ بادشاہ بھی لوگوں میں بڑا مقبول تھا، مگر اس خاتون نے جلد ہی لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ ایک مدت بعد بادشاہ فوت ہو جاتا ہے۔
عوام کو نئے حاکم کی ضرورت تھی، قوم کے سردار اکٹھے ہوئے، مشورہ شروع ہوا کہ کس کو یہ منصب سونپا جائے۔ یہ خاتون جو اب ملکہ تھی، لوگوں میں بڑی مقبول تھی، کسی نے اس کا نام پیش کر دیا۔ بس پھر کیا تھا، سب لوگوں نے اس پر لبیک کہا۔ کہنے لگے: اس سے بہتر بادشاہ نہیں مل سکتا۔ چنانچہ متفقہ طور اس عورت کو حکمران منتخب کر لیا جاتا ہے۔
ایک دن فیصلہ ہوا کہ شہر کے تمام لوگ ایک بڑے میدان میں ملکہ کے سامنے سے ایک ایک کر کے گزریں، تاکہ وہ ملکہ کے سامنے اظہار اطاعت کر سکیں۔
ملکہ کے لیے ایک بڑی کرسی میدان میں رکھ دی جاتی ہے۔ جب وہ اس پر بیٹھ جاتی ہے تو اس کی رعیت اس کو سلام کرتی ہوئی اس کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ وہ ایک ایک کر کے سب کو غور سے دیکھتی جاتی ہے۔ اسی دوران اس کا سابقہ خاوند اس کے سامنے سے گزرتا ہے۔ اس نے اپنے حاشیہ کو اشارہ کیا کہ اس شخص کو ایک طرف کھڑا کر دیا جائے۔
سپاہیوں نے اس کے سابقہ خاوند کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایک طرف کھڑا کر دیا۔ اتنے میں اس کے خاوند کا وہ خائن بھائی بھی گزرتا ہے، جس نے اس پر الزام لگایا تھا۔ ملکہ نے اس کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اسے بھی اس کے بھائی کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے۔ پھر اس نے اس عابد کو دیکھا جس کے گھر اس نے کام کیا تھا۔ اس کے اشارے پر اسے بھی ایک طرف کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اتنے میں اس خادم کی باری آگئی، جس نے بچے کو قتل کیا تھا۔ اس نے اشارہ کیا کہ اسے بھی اسی قطار میں کھڑا کر دیا جائے۔
اب اس نے اس خبیث کو دیکھا، جس کو دو دینار دے کر چھڑوایا تھا۔ حکم دیا کہ اس کو ان لوگوں کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے۔
لوگ اسے سلام کر کے گزرتے چلے گئے۔ ملکہ نے اپنے سابقہ خاوند کو بلایا اسے بتایا کہ تمہارے بھائی نے تمہارے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔
تم دھوکہ کھا گئے اور مجھے طلاق دے دی، مگر اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں، تم بری ہو۔ البتہ تمہارے بھائی نے میرے اوپر ناجائز الزام لگایا تھا، اس لیے اس کو اسی (80) درے لگائے جائیں گے۔
پھر اس نے عابد سے کہا: تمہارے خادم نے تمہیں دھوکہ دیا، مگر اس میں بھی تمہارا کوئی قصور نہیں، لہٰذا تمہیں با عزت بری کیا جاتا ہے، تاہم تمہارے خادم کو قتل کیا جائے گا۔ اس لیے کہ اس نے تمہارے بیٹے کو قتل کیا تھا۔ اب اس نے اس خبیث شخص کو بلایا کہ تم نے ایک ایسی عورت کو دھوکہ دیا جس نے تمہارے ساتھ احسان کر کے تمہارا قرضہ ادا کیا، نیز تمہیں غلام ہونے سے بچایا، مگر تم نے اپنی اسی محسنہ کو لونڈی بنا کر فروخت کر ڈالا۔
تمہاری سزا یہ ہے کہ تمہیں قید میں رہنا ہوگا۔
یہ تھا واقعہ ایک عفت مآب خاتون کا، جس نے اپنی عزت کو داغدار ہونے نہیں دیا۔ اسے خدا کا خوف تھا،وہ اپنے مالک وخالق سے ڈرتی تھی۔ جو لوگ اچھے اعمال ا ور اعلیٰ کردار کے مالک ہوتے ہیں، حق تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔اس کا فرمان ہے:
’’جو خدا تعالیٰ سے ڈر جائے، اس کا تقویٰ اختیار کرے تو خدا تعالیٰ اس کے لیے راستے آسان بنا دیتا ہے۔ اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان تک نہیں ہوتا۔‘‘
قارئین کرام! آئیے اسی قسم کا ایک اور واقعہ پڑھتے ہیں: (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment