ملعونہ کی رہائی فیصلے پر دو بڑے گدی نشینوں کا احتجاج سے گریز

نمائندہ امت
عدالت عظمیٰ کی جانب سے ملعونہ آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کیخلاف پنجاب کے دو بڑے گدی نشین احتجاج سے دور رہے۔ پیر آف سیال خواجہ حمیدالدین سیالوی نے صرف ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے ملعونہ کی بریت کے فیصلے کی مذمت کی۔ جبکہ پیر آف گولڑہ شریف غلام نظام الدین جامی بالکل خاموش رہے۔ جبکہ فیض آباد دھرنے میں کئی مقررین نے انہیں احتجاج میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ واضح رہے کہ توہین رسالت کے قانون میں مبینہ ترمیم کے موقع پر پیر آف سیال شریف اور پیر گولڑہ شریف نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی سخت مخالفت کی تھی۔ یہاں تک کے پیر آف گولڑہ شریف پیر غلام نظام الدین جامی دو تین بار فیض آباد دھرنے میں آئے اور نواز لیگی حکومت کے خلاف خوب بولے اور دھرنا دینے والوں کی بھرپور حمایت کی۔ لیکن اب آسیہ مسیح کی سپریم کورٹ سے بریت کے فیصلے کے خلاف احتجاجی تحریک اور دھرنے پر پیر آف گولڑہ شریف بالکل خاموش رہے۔ جبکہ فیض آباد دھرنے کے کئی مقررین نے انہیں دھرنے میں شریک ہونے کی دعوت دی اور پی ٹی آئی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہونے کا مشورہ دیا۔ لیکن انہوں نے عدالتی فیصلے کیخلاف ایک مذمتی بیان بھی نہیں دیا۔ البتہ پیر آف سیال شریف خواجہ محمد حمید الدین سیالوی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو شرعی اور اسلامی قوانین کے منافی قرار دیا اور پی ٹی آئی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی رٹ دائر کرے۔ واضح رہے کہ نواز لیگ حکومت کی جانب سے توہین رسالت قانون میں ترمیم کی کوشش پر ان دونوں بڑے گدی نشینوں نے مسلم لیگ (ن) کی مخالفت کرتے ہوئے الیکشن 2018ء میں تحریک انصاف کی حمایت کی تھی۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے گولڑہ شریف اور پیر سیال شریف سے ان کے آستانے پر جاکر ملاقات کی تھی اور پیر سیال کی سفارش پر ہی ان کے حلقے سے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے گئے، لیکن پی ٹی آئی کے امیدوار اس کے باوجود اس حلقے میں کامیابی سے دور رہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ ملعونہ کو بری قرار دینے پر تحریک لبیک نے ایک بار پھر دھرنا دیا اور اس فیصلے کے خلاف تحریک چلائی۔ ان دنوں یعنی 22 ، 23 اور 24 صفر المظفر کو آستانہ عالیہ سیال شریف ضلع سرگودھا میں سالانہ عرس ہو رہا تھا۔ پیر آف سیال شریف خواجہ محمد حمیدالدین سیالوی، جو اپنی بیماری اور پیرانہ سالی کی وجہ سے اونچی آواز میں بولنے سے قاصر ہیں، انہوں نے عرس کے موقع پر اپنی موجودگی کو یقینی بناتے ہوئے ایک بیان جاری کیا، جو ایک دفعہ عرس کے شرکا کے سامنے سیال شریف کے خطیب اللہ بخش سیالوی اور دوسری دفعہ پیر صاحب کے خلیفہ معظم الحق سیالوی نے ان کی موجودگی میں پڑھا، جس میں آسیہ مسیح کی بریت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ آسیہ مجرم ثابت ہوچکی ہے، اس لئے شرعی تقاضوں اور قانون کے مطابق اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ عدالت شرعی قوانین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دے۔
پیر آف سیال شریف کے بھتیجے اور سابق ایم پی اے صاحبزادہ نظام الدین سیالوی نے اس بارے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیر صاحب نے اپنا موقف اور احتجاج اپنے مریدین کے سامنے بیان کرایا، کیونکہ وہ خود زیادہ دیر اونچی آواز میں بولنے سے قاصر ہیں۔ نظام الدین سیالوی نے کہا کہ پیر صاحب ہمیشہ تشدد اور ایسے مظاہروں کے خلاف رہے ہیں، جن میں نجی یا سرکاری املاک کا نقصان ہو۔ وہ پُر امن احتجاج کے حامی ہیں۔ یہ بہت پُرتشدد احتجاج تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اس میں شامل ہونے کی کال نہیں دی۔ لیکن انہوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مجرمہ کو پھانسی دی جائے۔ جبکہ عرس میں دیگر مقررین نے بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالی۔
واضح رہے کہ پیر غلام نظام الدین جامی آف گولڑہ شریف نے نواز لیگی حکومت کے خلاف گزشتہ سال فیض آباد دھرنے میں شرکت کی تھی اور خطاب بھی کیا تھا۔ بعد میں انہوں نے الیکشن میں پی ٹی آئی کی حمایت کی، جبکہ عمران خان نے ان کے گھر پر حاضری بھی دی تھی۔ تاہم آسیہ کی بریت کے فیصلے کیخلاف دیئے گئے دھرنے سے پیر صاحب دور رہے۔ حتیٰ کہ اس فیصلے کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے یا بیان جاری کرنے سے بھی گریز کیا۔ اس کی وجہ غالباً ان کا موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت کا اتحادی ہونا تھا۔ ان کی کمی کو دھرنے کے شرکا خاص طور پر مقررین نے شدت سے محسوس کیا اور دو تین بار دوران خطابت بعض مقررین نے انہیں دھرنے میں شریک ہونے اور اس فیصلے کے بارے میں اپنا موقف بیان کرنے کی دعوت بھی دی۔ لیکن ہر وقت متحرک رہنے والے پیر غلام نظام الدین جامی نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔
راولپنڈی کی ایک اہم مذہبی شخصیت نے، جو اس دھرنے میں بھی شریک تھی، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہوں نے آسیہ مسیح کی بریت کے فیصلے کے بعد اور دھرنے کے دنوں میں بھی پیر غلام نظام الدین جامی صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کا موبائل اٹینڈ نہیں ہوا۔ ’’امت‘‘ نے بھی اس سلسلے میں پیر صاحب کا موقف جاننے کیلئے فون پر رابطہ کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ لیکن ’’تھوڑی دیر بعد کال کریں‘‘ کا پیغام دے کر کال ختم کردی گئی، جس کے بعد دوبارہ موبائل اٹینڈ نہیں ہوا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment