سوشل میڈیا کی جنگ تحریک لبیک نے جیت لی

امت رپورٹ
آسیہ مسیح کے ایشو پر ایک ’’جنگ‘‘ میدان میں اور ایک ’’جنگ‘‘ سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہے۔ آن لائن لڑی جانے والی جنگ میں سارا مغرب اور دیسی لبرل طبقہ، ملعونہ کی سپورٹ میں ایک پیج پر ہے۔ اس کے باوجود یہ ’’اتحاد‘‘ ،عاشقان رسول کو پچھاڑنے میں یکسر ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت پاکستان کی ناکام اور برطانوی این جی او کی کامیاب کوششوں کے بعد اگرچہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کا آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ بند کرایا جا چکا ہے۔ تاہم ’’امت‘‘ کی ریسرچ کے مطابق اس ایک اکائونٹ کی معطلی کے جواب میں لبیک تحریک کے حامیوں کی جانب سے مزید 33 نئے ٹوئٹر اکائونٹ اور فیس بک پیجز کھولے جا چکے ہیں۔ یوں خادم حسین رضوی کا ٹوئٹر اکائونٹ بند کرانے کا اقدام Counterproductive ثابت ہوا ہے۔ یعنی اس کا الٹا اثر ہوا۔ جبکہ سربراہ لبیک تحریک کی اکائونٹ بندش کے خلاف چلایا جانے والا ہیش ٹیگ #Restorekhadim RizviAccount وائرل ہو گیا۔ حتیٰ کہ خود حکمراں پارٹی تحریک انصاف کے بیشتر حامیوں نے بھی اس ہیش ٹیگ کی سپورٹ میں ٹویٹ کیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں # کی علامت کے ساتھ کوئی بھی لفظ یا الفاظ لگانا ہیش ٹیگ کہلاتا ہے۔ مثلاً کسی بھی ایشو سے متعلق لفظ # کے ساتھ جوڑ کر متعلقہ موضوع کے بارے میں اظہار رائے کرنے والوں کو سوشل میڈیا پر ایک پلیٹ فارم فراہم کر دیا جاتا ہے۔ ہیش ٹیگ سے جڑے جس موضوع پر بھی سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے، وہ اتنا ہی مقبول ہو جاتا ہے اور سوشل میڈیا کی دنیا میں اسے وائرل ہونا کہتے ہیں۔ ہیش ٹیگ کا ٹرینڈ اگرچہ سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس ٹوئٹر، ٹمبلر، انسٹا گرام، پنسٹرسٹ، لنکڈان اور گوگل پلس پر بھی چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن روایتی طور پر ہیش ٹیگ کا ٹرینڈ ٹوئٹر سے جڑا ہوا ہے۔
خادم حسین رضوی کا ٹوئٹر اکائونٹ بحال کرنے کا ہیش ٹیگ چلایا گیا تو اس پر نہ صرف ملک بھر میں، بلکہ بیرون ملک بھی کثرت سے اظہار خیال کیا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسی ہیش ٹیگ کی حمایت میں پوسٹیں کرنے والے پی ٹی آئی کے متعدد سپورٹرز میں سے ایک اوورسیز پاکستانی نے اپنے ویڈیو پیغام میں وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا… ’’ہم اوورسیز پاکستانیوں نے آپ کے ہر اقدام کی کھل کر حمایت کی، لیکن آپ نے آسیہ ملعونہ کی سزا کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ایک چھوٹا سا طبقہ قرار دے کر کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کی۔ آپ لوگ 126 دن کا دھرنا دے سکتے ہیں۔ جس میں ہم نے بھی آپ کو سپورٹ کیا تھا۔ آپ بجلی کے بل جلا سکتے ہیں۔ سول نافرمانی کی کال دے سکتے ہیں۔ لیکن مولویوں کو توہین مذہب جیسے حساس ایشو کے حق میں احتجاج کا حق کیوں نہیں؟ خان صاحب ہم آپ کے سپورٹر ہیں اور ہر اچھی بات میں آپ کو سپورٹ کریں گے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان مولوی حضرات اور علمائے کرام کا بہت بڑا شیئر ہے۔ ان حضرات کو آپ کی دھمکی کے جواب میں ہم مولویوں اور علمائے کرام کی حمایت کریں گے۔ جنہوں نے ہمارے جنازے پڑھانے ہیں۔ ہمارے نکاح پڑھانے ہیں اور ہمارے بچوں کو قرآن پاک پڑھانا ہے‘‘۔
دوسری جانب خادم حسین رضوی کے آفیشل اکائونٹ کو بند کرائے جانے کا ایشو سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں ڈسکس ہو رہا ہے۔ البتہ اس آن لائن بحث میں زیادہ حمایت پابندی لگانے کے عمل کو حاصل ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں برطانیہ، بلجیم، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، اسپین، اٹلی اور امریکہ سمیت دنیا بھر میں علامہ خادم حسین رضوی کو نئی شناخت مل چکی ہے، جو قبل ازیں پاکستان اور چند ممالک تک محدود تھی۔ مغربی ممالک میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا عام فرد بھی اب ان کا نام جاننے لگا ہے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ اور شاتم رسول گیرٹ ویلڈرز کے آسیہ ملعونہ کے حق میں ٹوئٹس نے اس مہم کو مزید مہمیز کیا ہے۔ خادم حسین رضوی کا آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ بند ہونے کے بعد اولین ٹوئٹس میں ایک پوسٹ جمائما گولڈ اسمتھ کی تھی۔ جس میں انہوں نے ٹوئٹر کی تعریف کرتے ہوئے لکھا… ’’آج کچھ چیزیں بہت اچھی ہوئی ہیں۔ شاباش ٹوئٹر‘‘۔ جمائما گولڈ اسمتھ نے چند روز پہلے بھی آسیہ ملعونہ کے حق میں ٹوئٹس کرتے ہوئے سابقہ شوہر عمران خان کی حکومت کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ جبکہ ڈچ شاتم رسول گیرٹ ویلڈرز کے آسیہ ملعونہ کی حمایت میں کھل کر آنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک کے مسلمان بھی غم و غصے میں ہیں اور وہ اپنے اس غصے کا اظہار سوشل میڈیا پر کر رہے ہیں۔
سماجی رابطوں کی مقبول ویب سائٹ ٹوئٹر نے چند روز پہلے خادم حسین رضوی کا آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ بند کیا تھا۔ اس سلسلے میں پاکستان حکام نے ٹوئٹر انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا۔ تاہم یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کا اعتراف وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بھی کیا۔ عین اس دوران ایک برطانوی این جی او ’’فیتھ میٹرز نیٹ ورک‘‘ بھی خادم حسین رضوی کا ٹوئٹر اکائونٹ بند کرانے کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی۔ ’’امت‘‘ کی ریسرچ کے مطابق ٹوئٹر نے پاکستانی درخواست کو نظرانداز کر دیا۔ تاہم بااثر مغربی این جی او کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے لبیک تحریک کے سربراہ کا ٹوئٹر اکائونٹ یہ کہہ کر بلاک کر دیا کہ ان کا اکائونٹ ویب سائٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خادم حسین کا اکائونٹ بند کرانے کا کریڈٹ حکومت پاکستان لے رہی ہے اور میڈیا میں بھی یہی بات عام ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں پاکستانی حکام کی کوششیں ناکام رہیں۔ خادم حسین کا ٹوئٹر اکائونٹ بند کرانے کے بعد ’’فیتھ میٹرز‘‘ نے اپنے ٹوئٹ اکائونٹ پر لکھا… ’’ہم نے اپنے مؤثر ٹوئٹر رابطوں کے ذریعے 72 گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد خادم حسین رضوی کا ٹوئٹر اکائونٹ بند کرانے میں کامیابی حاصل کر لی‘‘۔ کہانی کا دلچسپ موڑ یہ ہے کہ ابھی مغربی چیمپئن اور ان کے ہمنوا دیسی لبرل، خادم حسین رضوی کے ٹوئٹر اکائونٹ کی بندش کی خوشیاں منا رہے تھے کہ ٹی ایل پی کے میڈیا ٹوئٹر اکائونٹ ’’لبیک پاکستان‘‘ نے یہ ٹوئٹ کر کے ان خوشیوں پر پانی پھیر دیا کہ… ’’علامہ خادم حسین رضوی کا نیا آفیشل اکائونٹ بنا دیا گیا ہے۔ تمام کارکنان اور سپورٹرز اسے فالو کریں‘‘۔ تاہم اگلے روز ٹوئٹر نے خادم حسین رضوی کے نئے اکائونٹ کو بھی بلاک کر دیا۔ اس وقت فیتھ میٹرز کا اگلا ہدف تحریک لبیک کا میڈیا ٹوئٹر اکائونٹ ’’لبیک پاکستان‘‘ اور خادم حسین رضوی کا آفیشل یو ٹیوب چینل ہے۔ یہ دونوں اکائونٹس بند کرانے کے لیے فیتھ میٹرز بری طرح ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ لیکن تاحال اسے ناکامی کا سامنا ہے۔ ’’امت‘‘ کی تحقیق کے مطابق اب تک نہ صرف ٹی ایل پی کا میڈیا ٹوئٹر اکائونٹ ’’لبیک پاکستان‘‘ کام کر رہا ہے، بلکہ خادم رضوی کا یو ٹیوب چینل بھی بند نہیں کرایا جا سکا ہے۔ دوسری جانب اس دوران تحریک لبیک کے مزید 33 نئے ٹوئٹر اکائونٹ اور فیس بک پیج منظر عام پر آچکے ہیں۔
’’امت‘‘ کی معلومات کے مطابق اس وقت تحریک لبیک کے کارکنوں، حامیوں اور ہمدردوں کے ایک ہزار سے زائد ٹوئٹر اکائونٹ، فیس بک پیج اور انسٹا گرام اکائونٹ سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ فیتھ میٹرز نے اعلان کیا ہے کہ خادم حسین رضوی یا تحریک لبیک کے اکائونٹس کے بارے میں اسے اطلاع دی جائے، تاکہ وہ انہیں بند کرانے کے لیے متعلقہ ویب سائٹس کی انتظامیہ سے بات کرے۔
اس وقت سوشل میڈیا پر یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا خادم حسین رضوی کا ٹوئٹر اکائونٹ بند کرانے کے مقاصد حاصل ہو جائیں گے؟ اس کا جواب مختلف سوشل میڈیا ایکسپرٹ نے نفی میں دیا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے شریک بانی اسد بیگ نے جرمنی ریڈیو ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ حکومتیں ٹوئٹر، فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شائع ہونے والے مواد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔ اسد بیگ کہتے ہیں ’’اس خاص کیس میں ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا خادم حسین رضوی ٹوئٹر اکائونٹ کے ذریعے لوگوں کو متحرک کر رہے تھے؟ ایسا بالکل نہیں ہے‘‘۔ اسد بیگ کی رائے میں اگر خادم رضوی کے ٹوئٹر اکائونٹ سے نفرت انگیز مواد شائع نہیں کیا جارہا تو اس اکائونٹ کو بند کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ٹی ایل پی کے سینکڑوں اکائونٹ ہیں، جو اس تنظیم کے خیالات کو نشر کر رہے ہیں۔ لہٰذا خادم رضوی کے اکائونٹ کی بندش سے بظاہر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ’’بولو‘‘ کی سربراہ فریحہ عزیز نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹوئٹر اکائونٹ بند کر دینا مسئلے کا حل نہیں۔ اور اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ تنظیمیں اپنے پیغامات نشر کرنے کے لیے صرف ٹوئٹر اکائونٹس پر انحصار نہیں کر رہیں۔
خادم حسین رضوی کے اکائونٹ کی بندش کے حوالے سے جب ’’امت‘‘ نے تحریک لبیک کے ذمہ داروں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ٹی ایل پی کی سوشل میڈیا ٹیم، تنظیم کے مرکزی شعبہ نشر و اشاعت کے زیر اہتمام کام کرتی ہے۔ دیگر سیاسی پارٹیوں کے برعکس ٹی ایل پی کی سوشل میڈیا ٹیم کے ارکان نہ تنخواہ لیتے ہیں اور نہ ہی کُل وقتی ملازم ہیں۔ ٹی ایل پی کے مرکزی میڈیا سیل کے ذرائع نے بتایا کہ جب بھی کوئی ایشو یا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو ان کی سوشل میڈیا کے تمام ارکان رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں، تاکہ سوشل میڈیا پر مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک لبیک پاکستان کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹس کی تعداد صرف چار ہے۔ جن میں خادم حسین رضوی، پیر اعجاز اشرفی، وحید نور اور دیگر کے اکائونٹ شامل ہیں۔ اسی طرح ایک آفیشل یوٹیوب چینل ہے۔ تاہم ٹی ایل پی کے کارکنوں اور ہمدردوں نے اپنے طور پر بھی بڑی تعداد میں اکائونٹ بنا رکھے ہیں۔ ان کی تعداد دو سے زائد ہے۔ جب کوئی بڑا ایشو ہو تو ٹی ایل پی کے حامی اکائونٹس کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ٹی ایل پی جانتی بھی نہیں۔ یہ عاشقان رسولؐ اپنے طور پر میدان میں اترتے ہیں۔ مرکزی میڈیا سیل کے ذرائع کے بقول خادم حسین رضوی سمیت تنظیم کے دیگر سوشل میڈیا اکائونٹ بند کرنے کی صورت میں بھی ٹی ایل پی کے تنظیمی نیٹ ورک کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو تحریک لبیک صرف مخالفین کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ تاہم تنظیم کی پیغام رسانی اور اہم رابطوں کا ذریعہ مساجد، مدارس، اور خانقاہیں ہیں۔ جب بھی کوئی احتجاج کرنا ہو یا اہم اجلاس بلانا ہو تو اس کے لیے متذکرہ ذرائع کے علاوہ ٹیلی فون کالز سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment